جنیوا:
اقوامِ متحدہ نے کہا ہے کہ شام میں گزشتہ برسوں کے مقابلے میں 2016 میں بچوں کی ریکارڈ اموات ہوئی ہیں اور سب سے زیادہ زخمی بھی اسی سال سال نوٹ کیے گئے ہیں۔
اقوامِ متحدہ میں بچوں کی تعلیم اور صحت کے عالمی ادارے یونیسیف کے مطابق گزشتہ برس شام میں 652 بچے ہلاک اور 647 شدید زخمی ہوئے ہیں۔ یونیسیف نے اپنی ایک رپورٹ ’’ہٹنگ راک باٹم‘‘ جاری کی ہے جس میں کہا گیا ہےکہ 2011 میں شامی خانہ جنگی کے بعد 2016 کا سال بچوں کے لیے سب سے ہلاکت خیزرہا ہے۔
رپورٹ میں بچوں کی ہلاکت اور زخمی ہونے کی ہولناک داستانیں بھی بیان کی گئی ہیں۔ ادارے کےمطابق تمام واقعات کو رپورٹ کرتے ہوئے اچھی طرح تصدیق کی گئی ہے۔ اس طرح یہ سال بچوں کے لیے نہایت خطرناک اور مہلک ثابت ہوا ہے اور 2015 کے مقابلے میں 20 فیصد زیادہ بچے لقمہ اجل بنے ہیں۔
رپورٹ کے مطابق ہلاک ہونے والے 652 معصوم بچوں میں سے 255 اپنے اسکول میں پڑھتے ہوئے جاں بحق ہوئے جب کہ اسپتالوں اور طبی عملے پر 338 حملے کیے گئے۔ رپورٹ کی سب سے ہولناک بات یہ ہے کہ چھوٹے بچوں کو لڑنے کے لیے بھرتی کیا گیا اور گزشتہ برس 850 سے زائد بچوں کو جنگ میں لڑنے کی تربیت دے کر انہیں محاذ پر بھیجا گیا، کئی معاملات میں بچوں کو خودکش بمبار بنایا گیا اور ان سے لوگوں کو قتل بھی کروایا گیا جب کہ یہ تعداد 2015 کے مقابلےمیں دُگنی ہے۔
رپورٹ جاری کرتے ہوئے یونیسیف کے علاقائی سربراہ گیرٹ کیپلیری نے کہا کہ اس وقت بھی لاکھوں بچوں کو روزانہ کی بنیاد پر نشانہ بنایا جارہا ہے اور ان کی صحت، فلاح اور زندگی شدید خطرے میں ہے، لگ بھگ 28 لاکھ بچے کہیں جا نہیں سکتے اور 2 لاکھ 80 ہزار بچے سقوط کی صورتحال میں ہیں جو کسی قید سے کم نہیں۔ دوسری جانب بچوں کو اسلحہ تھما کر انہیں محاذ پر بھیجا جارہا ہے اور خودکش حملوں میں بھی بچوں کو استعمال کیا جارہا ہے، اس کے علاوہ بچوں کو قیدخانوں کا گارڈ بھی بنایا گیا ہے۔ رپورٹ کے مطابق اس وقت 23 لاکھ بچے لبنان، ترکی ، اردن ، مصر اور عراق میں پناہ گزین کی حیثیت سےرہ رہے ہیں۔