ساس ‘بہو کی ”تُوتکار“

پروین
آج پیچھے مڑ دیکھا جائے تو یقین نہیں آتا کہ وقت نے کس طرح انسانی مزاج اور معاشروں کو تبدیل کر کے رکھ دیا ہے۔ہماری زندگی کے روز وشب میں کس قدر تبدیلی آچکی ہے۔ہمارے روز مرہ کے رویے اور رہن سہن اور اقدار یکسربدل کر رہ گئی ہیں لیکن وقت کی اتنی تیز رفتاری اور ترقی کے باوجود کسی نہ کسی معاملے میں ہم آج بھی اتنے ہی قدامت پسند ہیں جتنے کہ تیس چالیس سال پہلے تھے۔ہم وقت کی رفتار کے ساتھ ترقی کی دوڑ میں شامل تو ہوئے لیکن اس کے باوجود کہیں نہ کہیں کچھ رشتوں کے ساتھ کم ظرفی کا مظاہرہ کر جاتے ہیں یعنی آج بھی کتنے رشتے ایسے موجود ہیں جنہیں قبول تو کرتے ہیں لیکن برداشت نہیں کرتے جیسے کہ ساس بہو ،نند اور بھاوج کا رشتہ سر فہرست ہے،کتنے موسم بدل گئے ،وقت کا مزاج پہلے سانہ رہا ان رشتوں کی نوک جھوک اتارچڑھاﺅ آج بھی ویسے کا ویسا ہے۔کہتے ہیں کہ انسان کی عادت بدل جاتی ہے لیکن فطرت نہیں بدلتی ،اس لئے اس بات سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ بات بات پر ٹوکنا ساس کی فطرت ٹھہری اور اسکی ہر بات کو خواہ وہ اچھی ہویا بری ،ان سنی کرنا بہو کی فطرت ہے۔ساس اور بہو کا رشتہ کہنے میں جتنا بھی خوبصورت ہے اتنا ہی اس رشتے میں کریلے کی طرح کڑواپن موجود ہے ہمیشہ ایسا نہیں ہوتا کہ ساس ہی ہرمعاملے میں ہر جگہ غلط ہو وہی ظالم ہو کبھی بہو بھی غلط ہو سکتی ہے۔
یہ سچ ہے کہ ایک لڑکی ما ں باپ کا گھر چھوڑنے کے ساتھ اپنی ہم عمر سہیلیوں ،وہاں کی گلیاں چوبارے سب چھوڑکر آتی ہے۔حقیقتاً یہ مرحلہ اس کے لئے ذہنی طور پر تکلیف دہ بھی ہوتا ہے اسی لئے سسرال کے گھر اور وہاں کے اجنبی ماحول میں اسے سب سے زیادہ ساس کے مشفقانہ رویے کی ضرورت ہوتی ہے۔لیکن اسے سمجھنے سنبھالنے کے وقت میں وہی دونوں رشتے اپنی اپنی ذات میں سمٹ کر ایک ہونے کی بجائے الگ الگ محاذ بنالیتے ہیں۔ساس کا حق ہوتا ہے کہ بہو کو اپنے خاندان اور گھر کے طورطریقے اچھے انداز سے سمجھائے جب کہ بہو کو فرض سمجھتے ہوئے چاہئے کہ وہ سسرال کے گھر کے طور طریقوں کوبخوبی اپنانے کی کوشش کرے۔لیکن ہوتا یوں ہے کہ ساس سمجھانے کی بجائے الٹا دونوں خاندانوں کا موازنہ کرنے لگتی ہے اور ایسے میں بہوکے طنزیہ جملوں کا استعمال کرکے اس کی دل آزاری میں کوئی کسر نہیں چھوڑتی یعنی کہ اپنا حق غیر مناسب اور منفی رویے سے استعمال کرنے لگتی ہے ایسے حالات اور رویوں کی زد میں بہو بھی اپنا فرض پورا کرنے کے لئے ذہنی طور پر آمادہ نہیں ہوتی ۔ان حالات میں ایک قسم کی سرد جنگ کا آغاز اس وقت ہوتا ہے جب بہواپنا لائحہ عمل گھر کے نظام پر مسلط کرتی ہے ایسے میں ساس بہو کو بدتہذیب اور گنوار جیسے القابات سے نوازتی ہے۔لہذا ایسے ہی ہمیشہ ساس کو ہی کیوں غلط سمجھا جاتاہ ہے۔؟سارے کے سارے قصوراس کے کھاتے میں درج کردیئے جاتے ہیں ۔بہوﺅں کو کیوں ”بیچاری اور معصوم “ کا خطاب دیا جاتا ہے؟ان کی غلطیاں کیوں نظر انداز کرکے ساس کو چڑیل کے رویے میں پیش کیا جاتا ہے۔میرا خیال ہے کہ اس بات سے کوئی بھی لڑکی انکار کرے کہ ماں باپ کے گھر سے رخصت ہوتے وقت جہاں نئے اور اپنے گھر کا ارمان اس کے دل کو مسرت دے رہا ہوتا ہے وہیں اس کے دل ودماغ میں یہ بات ضرور ہوتی ہے اس کے سسرال والے اس کے والدین نہیں بلکہ صرف ساس اور سسرہیں یہی ایک بات اسے بہو سے بیٹی نہیں بننے دیتی ۔میکے کی ایک اچھی بیٹی سسرال میںصرف ایک بہو کی حیثیت اختیار کر لیتی ہے۔جب ایک لڑکی خود کو ایک بہو کہلوانے کے بجائے بیٹی کہلوانے میں دلچسپی لے تو شاید اس رشتے میں کڑواہٹ پیدا ہی نہ ہو۔ موجودہ دور کی لڑکیوں کا ایک المیہ یہ ہے کہ بری تو بری میری اچھی بات کا بھی برا مانتی اور نفی کرتی ہیں۔ اس بات کو اگر اپنی ماں کہے گی تو اسے قبول کریں گی چاہے اس کا طریقہ کا رساس سے بھی زیادہ منفی ہو لیکن وہ بات ماں نے کہی ہے اس لئے اچھے لگے کی اسی طرح گھر میں اگر بہنیں آئیں گی تو سارا دن کچن میں رہ کر بھی تھکا وٹ نہیں ہوگی،اگر نندیں دو گھنٹے کے لئے آجائیں تو کچن کا بجٹ خراب ہونے کا سنائیں گی اور بار بار تکھاوٹ کا اظہار کریں گی جب کہ ساس اس رویے کی شکایت کرے تووہ غلط اور ظالم بن جاتی ہے۔
اس طرح اکثر دیکھنے میں آیا ہے کہ شاپنگ کرتے وقت اچھی چیزبہن کے لئے اور کمتر نند کے لئے خرید ے گی جسے شوہر بھی بآسانی ہضم کر جائے گا لیکن اگر یہی سلوک ساس بہو اور بیٹی کے درمیان کرے گی تونہ یہ بیٹے کو ہضم ہوگا اور نہ بہوکو،تب اس بات کونا انصافی قرار دیتے ہوئے ساس کو غلط کہا جاتا ہے۔یہ کہنا بے جا نہ ہوگاکہ حقیقتاً یہ ایسی لڑائی ہے جس میں عورت کے ہی مختلف روپ آمنے سامنے ہیں کبھی وہ بناتی اور کبھی بگاڑ لیتی ہے۔ایک عورت چاہے تو ساس یا بہو بن کر گھر بگاڑ دے چاہے توسنوار دے۔
سوچنے کی بات یہ ہے کہ کومل اور نازک احساسات رکھنے والی کل کی معصوم لڑکی اتنی ہی سیاسی اور سمجھدار کیسے ہوجاتی ہے کہ وہ صرف اپنے مفادات کے فیصلے کرنے لگتی ہے سسرال رشتے داروں کے خلاف نفرتیں اور کڑواہٹیں کہا ں سے آجاتی ہیں؟ رشتے تو رشتے ہوتے ہیں چاہے شوہر کے ہو یا بہو کے پھر آج کے درمیان ختم نہ ہونے والا فرق کہاں سے آجاتا ہے۔یہی رشتے جوماں کے گھر ایک بیٹی کے لئے پیارے ہوتے ہیں سسرال میں آکر وہی رشتے ناپسندیدہ کیوں ہوجاتے ہیں ؟ ان تفرقات سے گھر تو خراب ہو ہی جاتے ہیں پھر چاہے اس کی ذمہ دار ایک بہو ہو یا ساس،لیکن حقیقتاً یہ ہے کہ ساس ہی کو الزام شدہ ٹھہرا یا جاتا ہے ۔ کیا بہو کی کبھی غلطی نہیں ہوتی ۔اکثر دیکھنے میں آتا ہے کہ اگر کوئی ساس بہو سے ماں جیسا سلوک کرے تو اس کی تعریف کی بجائے ڈرامہ بازی قرار دیا جاتاہے۔
یہ زندگی مختصر سی ہے اس میں نفرتیں بھریں گے تو بھی ہم نے گزارنی ہے محبتیں اور سکون ہوگا توبھی ہم نے گزارنی ہے،تو پھر کیا یہ ضروری ہے کہ خود سے وابستہ جڑے رشتوں کو دکھ دیاجائے۔اپنے سکون اور ذاتی اناکی تسکین کی خاطر گھر جیسی جنت کی فضا ءکو جہنم میں بدل دیا جائے۔جب کہ حقیقت یہ ہے کہ کسی کی دل آزاری کرکے کبھی سکون نہیں مل سکتا۔ لہذا خود کو ایک پیار بانٹنے والی عورت کی نظر سے دیکھیں تو سبھی رشتے اپنے اپنے دائروں میں انگوٹھی میں نگینے کی طرح جڑجائیں گے۔ساس کوئی غلط بات کہے یا وہ اسے اچھی نہ لگ رہی تو بہو کو چاہئے کہ وہ اس بات کو ماں کے حوالے سے سمجھ کر بھلا دیا جائے اسی طرح کوئی بہو اپنے فرائض و معاملات سے چشم پوشی کرے تو سا س کوبھی چاہئے کہ بیٹی سمجھتے ہوئے درگزراور معاف کرنے کا مظاہرہ کرکے اس کی غلطیوں کی پردہ پوشی کرے بات صرف سمجھنے کی ہے ورنہ یہ رشتے اتنے کڑوے نہیں جتنا انہیں معاشرے نے بنا دیا ہے۔
موجودہ دور کی ساس اور بہو کو اپنے رویوں میں بدلتی رتوں کے ساتھ تبدیلی لانی ہوگی اب پرانے تنقیدی رویوں سے روگردانی کرنے میں ہی عافیت ہے کیونکہ اگرآج کی بہو پہلے جیسی روایتی ساس نہ بن کے رہ جائے بلکہ رشتوں کو گھٹن کی طرح چاٹتے ہوئے منفی رجحانات سے بچانا ہوگا اس ضمن میں الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا کو بھی اہم کردار ادا کرنا ہوگا کیونکہ ہمسایہ ملک کے ڈراموں میں عورت کے منفی کردار کو بہت اجاگر کیا گیا ہے جس سے عورت دوسرے گھر کی ان محلاتی سازشوں کی کھینچا تانی میں لگی ہوئی ہیں جس وجہ سے آج رشتوں کا احترام وتقدس مجروح ہوتا جارہا ہے۔ جب کہ کسی بھی پرسکون وخوش حال گھر کی بینادی اساس یہی احترام اہم حوالے ہے ورنہ اس کے بغیر زندگی سوائے جنگ وجدل کے میدان کے کچھ نہیں ہے۔
ساس کے تاثرات:بیگم روبینہ اختر جو کہ ساس خاتون ہیں نے کہا کہ ساس اگر خاموش بھی رہے تو بہو کے دماغ کو اس کا بخار چڑھا رہتا ہے ،بہو کو سا س کی درست بات بھی الٹ ہی سمجھ آتی ہے جب کہ بہو اگر ٹھنڈے دل ودماغ سے غور کرے تو اس کے فائدے کے لئے کہا جاتا ہے کیونکہ آنے والے وقت میں گھر کی دیکھ بھال اور سارے معاملات کو بہونے ہی سنبھالنا ہوتا ہے دیکھا جائے تو یہ بہو کی تربیت کا دور ہوتا ہے جب کہ اکثر بہوﺅں کا کہنا ہے کہ ہم والدین کے گھر سے جاہل اٹھ کر نہیں آئیں لیکن میرے خیال میں ایک لڑکی کو اپنے ماں باپ کا گھر جو سیکھا ہوتا ہے وہ کام آتا تو ہے مگر سسرال کے گھر تھوڑے سے بدلے ہوئے طورطریقے بہو کو ذرا مختلف لگتے ہیں جو اسے سمجھنے چاہئیں۔بہو کی کامیابی اسی میں ہوتی ہے کہ وہ ساس کی اچھی باتوں کو بھی یاد رکھے نہ کہ ایک طرفہ بات دماغ میں بیٹھا لے کہ ساس اچھی نہیں اور پھر گھر آتے ہی شوہر کے بھی ساس،نند اور گھر کے دوسرے افراد کے خلاف کان بھرنا شروع کر دے ،آخر بہو کو بھی تو ایک دن ساس بننا ہے۔
بہو کے تاثرات:مسز عنبرین جوکہ گھریلو خاتون ہیں انہوں نے ساس بہو کی توتکار پر بات کرتے ہوئے کہا کہ سمجھ نہیں آتی کہ یہ عجیب سا رشتہ ہے کہ خاندان میں ایک دوسرے کو جاننے کے باوجود وہی پھو پھا یا خالہ جو ساس بنتے ہی پہلے کس قدر اچھی ہوتی ہے بدل کیسے جاتی ہے بچپن سے ہم ایک دوسرے کی عادات کو جانتے ہیں مگر جیسے ہی وہ رشتہ ساس کے روپ میں ڈھلتا ہے نہ جانے کیوں چھوٹی چھوٹی بات پر طنز کیا جاتاہے اور ہر وقت یہی احساس دلایا جاتا ہے کہ جیسے ساس صاحبہ تو سارے زمانے کے ہنر جانتی ہیں۔بہو پڑھی لکھی ہونے کے باوجود جاہل وبے ہنر اور نکھٹو قرار دی جاتی ہے۔
تعویذبنانے والے کے تاثرات :ایک بابا جی اپنے آستانے پر آنے والے پریشان حال لوگوں کے مسائل سن کر تعویذ گنڈکرتے ہیں ان کا کہنا ہے کہ عمر گزر چلی ہے اسی کام میں مگر ساس نے اور بہو نے کبھی سلوک اتفاق کے لئے تعویذنہیں لیا بس ایک دوسرے کے خلاف ہی تعویذ لکھواتی ہیں سا س کہے گی کہ بیٹا بہوکا ہوگیا ہے میرا خیال نہیں رکھتا بہو کہے گی شوہر گھرآتا ہے تو میری ساس اسے میرے خلاف بھرکاتی ہے۔میرے خیال میں ان دونوں کے درمیان بیچارہ مرد بری طرح پس رہا ہے۔اکثر ایسا ہوتا ہے کہ عورتوں کی لڑائی کی وجہ سے نوبت طلاق تک آجاتی ہے۔گھراجڑ جاتے ہیں اور بچے بیچارے نہ ادھر کے نہ اُدھر کے رہتے ہیں۔بابا نے کہا کہ بے شک یہ دنیا فانی ہے سب کچھ یہیں رہ جاتا ہے مگر اس بات کو یہ پڑھے لکھے لوگ کیوں نہیں سمجھتے۔ میرے پاس ۰۸ فیصد پڑھی لکھی خواتین آتی ہیں ان سے تو ایسی عورتیں بہتر ہیں جو پڑھی لکھی تو نہیں مگر باشعور اور سمجھدار ہوتی ہیں۔

About BLI News 3239 Articles
Multilingual news provider for print & Electronic Media. Interviews, Exclusive Stories, Analysis, Features, Press Conferences Photo & Video Coverage and Economic Reviews, Pakistan and Worldwide. Opinions, Documentaries & broadcast.