روزے کے روحانی پہلوؤں اور ثمرات سے تو کسی کو انکار نہیں ہے، مگر اس کے اثرات جسم پر بھی مرتب ہوتے ہیں جس کا اندازہ ایک روزے دار سے بہتر کسی کو نہیں ہوسکتا۔
روزہ نہ صرف انسان کو صبر و شکر کی جانب راغب کرکے اس کے انسانی زندگی پر بہترین اثرات مرتب کرتا ہے بلکہ وہ جسم میں قوت مدافعت بڑھاتا ہے، کئی قسم کی بیماریوں کو ختم کرنے میں معاون و مددگار ہوتا ہے اور اگر سحری اور افطاری میں اعتدال کا دامن نہ چھوڑا جائے تو یہ وزن کم کرنے ،دل اور دیگر اعضائے رئیسہ کو مختلف امراض سے بچانے میں معاون و مددگار بھی ہوتا ہے۔
ایک تحقیق کے مطابق روزہ رکھنے سے انسانی جسم کے مردہ یا کینسر زدہ سیل ختم ہونے لگتے ہیں، روزے دار کا بدن ان خلیات کو کھانے لگتا ہے اور مریض شفا یاب ہوجاتا ہے۔
روزے کے دوران دن بہ دن ہمارے جسم پر جو اثرات مرتب ہوتے ہیں اور ہمارا بدن جس ردعمل کا اظہار کرتا ہے اس کے متعلق کچھ دلچسپ معلومات حاضر خدمت ہیں۔
پہلا اور دوسرا روزہ:
رمضان کے پہلے ہی دن بلڈ شگر لیول گرتا ہے یعنی خون سے چینی کے مضر اثرات کم ہونا شروع ہوجاتے ہیںہے، جس کی وجہ سے دل کی دھڑکن سست ہو جاتی ہے اور خون کا دباؤ کم ہو جاتا یعنی بلڈ پریشر کم ہو جاتا ہے۔
انسانی جسم روزےکے شروع ہونے سے 8گھنٹے بعد تک معمول کی حالت میں رہتا ہے، یہ وہ وقت ہے جب معدے میں پڑی خوراک مکمل طور پر ہضم ہو جاتی ہے،اس کے بعد جسم جگر اور پٹھوں میں ذخیرہ شدہ گلوکوز کے ذرائع استعمال کرنا شروع کر دیتا ہے، جب یہ ذخیرہ بھی ختم ہو جائے تو پھر جسم چربی کو پگھلا کر اسے توانائی کے لیے استعمال کرتا ہے۔
کاربوہائیڈریٹ روٹی، چاول، آلو اور سبزیوں میں پایا جاتا ہے، انسانی جسم لگ بھگ 60 فیصد توانائی کاربوہائیڈریٹ سے حاصل کرتا ہے، انسانی دماغ اور عضلات کے لیے یہ نہایت اہم توانائی کا ذریعہ ہے، کاربوہائیڈریٹ میں نائٹروجن نہیں ہوتی، انسانی جسم میں ضرورت سے زیادہ کاربوہائیڈریٹ کو ذخیرہ کرنے کی گنجائش نہ ہونے کے برابر ہے، تھوڑا بہت جو ذخیرہ ہوتا ہے وہ گلائیکوجن کی شکل میں جگر اور عضلات میں ہوتا ہے۔
روزے کی حالت میں اعصاب جمع شدہ ہارمون گلائیکوجن کو آزاد کر دیتے ہیں جس کی وجہ سے جسمانی کمزوری کا احساس اجاگر ہو جاتا ہے، زہریلے مادوں کی صفائی کے پہلے مرحلے میں نتیجتاً سر درد، چکر آنا، منہ کا بد بودار ہونا اور زبان پر مواد کا جمع ہونا جیسی علامات نمودار ہوتی ہیں۔
تیسرے تا ساتواں روزہ:
تیسرے سے ساتویں روزے تکجسم میں موجود چربی ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوتی ہے اور پہلے مرحلے میں گلوکوز میں تبدیل ہو جاتی ہے، بعض لوگوں کی جلد ملائم اور چکنی ہو جاتی ہے، جسم بھوک کا عادی ہونا شروع ہوتا ہے اور اس طرح سال بھر مصروف رہنے والا نظام ہاضمہ رخصت مناتا ہے جس کی اسے اشد ضرورت تھی، خون کے سفید جرثومے اور قوت مدافعت میں اضافہ شروع ہو جاتا ہے، ہو سکتا ہے روزے دار کے پھیپڑوں میں معمولی تکلیف ہو اس لیے کہ زہریلے مادوں کی صفائی کا عمل شروع ہو چکا ہے، انتڑیوں اور کولون کی مرمت کا کام شروع ہو جاتا ہے، انتڑیوں کی دیواروں پر جمع مواد ڈھیلا ہونا شروع ہو جاتا ہے۔
جسم کے روزے کا عادی ہو نے کے نتیجے میں چربی پگھل کر گلوکوز میں تبدیل ہونے لگتی ہے،اس لیے ضروری ہے کہ افطار تا سحری زیادہ سے زیادہ پانی پیا جائے، سخت گرم موسم ہونے کی وجہ سے حالتِ روزہ میں پسینہ آنے سے جسم میں پانی کی کمی یعنی ڈی ہائیڈریشن ہو نے کے امکانات بڑھ جاتے ہیں۔
آٹھویں سے پندرہویں روزے تک:-.آپ پہلے سے توانا محسوس کرتے ہیں، دماغی طور پر چست اور ہلکا محسوس کرتے ہیں، ہو سکتا ہے پرانی چوٹ اور زخم محسوس ہو نا شروع ہوں، اس لیے کہ اب آپ کا جسم اپنے دفاع کے لیے پہلے سے زیادہ فعال اور مضبوط ہو چکا ہے، جسم اپنے مردہ یا کینسر شدہ سیل کو کھانا شروع کر دیتا ہے جسے عمومی حالات میں کیموتھراپی کے ساتھ مارنے کی کوشش کی جاتی ہے، اسی وجہ سے خلیات سے پرانی تکالیف اور درد کا احساس نسبتاً بڑھ جاتا ہے۔اعصاب اور ٹانگوں میں تناؤ اس عمل کا قدرتی نتیجہ ہوتا ہے۔ یہ قوت مدافعت کے جاری عمل کی نشانی ہے۔ روزانہ نمک کے غرارے اعصابی اکڑاؤ کا بہترین علاج ہے۔سولہویں سے تیسویں روزے تک :-جسم پوری طرح بھوک اور پیاس کو برداشت کرنے کا عادی ہو چکا ہے، آپ اپنے آپ کو چست، چاک و چو بند محسوس کرتے ہیں، ان دنوں آپ کی زبان بالکل صاف اور سرخی مائل ہو جاتی ہے، سانس میں بھی تازگی آجاتی ہے، جسم کے سارے زہریلے مادوں کا خاتمہ ہو چکا ہے، نظام ہاضمہ کی مرمت ہو چکی ہے، جسم سے فالتو چربی اور فاسد مادوں کا اخراج ہو چکا ہے، بدن اپنی پوری طاقت کے ساتھ اپنے فرائض ادا کرنا شروع کر دیتا ہے، بیس روزوں کے بعد دماغ اور یاد داشت تیز ہو جاتے ہے، توجہ اور سوچ کو مرکوز کرنے کی صلاحیت بڑھ جاتی ہے، بلا شک بدن اور روح تیسرے عشرے کی برکات کو بھر پور انداز سے ادا کرنے کے قابل ہو جاتے ہیں،یہ تو دنیا کا فائدہ رہا جو بے شک ہمارے خالق نے ہماری ہی بھلائی کے لیے ہم پر فرض کیا ہے، مگر دیکھیے اس کی رحمت کا انداز کریمانہ کہ اس کے احکام ماننے سے دنیا کے ساتھ ساتھ ہماری آخرت بھی سنوارنے کا بہترین بندوبست کر دیا گیا ہے۔
آٹھواں تا پندرہواں روزہ:
روزے دار خود دو پہلے سے زیادہ چست اور توانا محسوس کرنے لگتا ہے، دماغی طور پر بھی چست اور ہلکا پھلکا محسوس کرتا ہے، تاہم ممکن ہے کہ کوئی پرانی چوٹ اور زخم اپنا احساس دلانے لگے، اس لیے کہ اب انسانی جسم کا دفاعی نظام پہلے سے زیادہ فعال اور مضبوط ہو چکا ہوتا ہے، جسم مردہ یا کینسر شدہ سیل کھانے لگتا ہے،عام حالات میں کینسر کے مریض میں ان سیلز کو کیموتھراپی کے ذریعے ختم کرنے کی کوشش کی جاتی ہے، اسی وجہ سے خلیات سے پرانی تکالیف اور درد کا احساس نسبتاً بڑھ جاتا ہے،اعصاب اور ٹانگوں میں تناؤ پیدا ہوجاتا ہے جو اس عمل کا قدرتی نتیجہ ہے اور جسم میں قوت مدافعت کے بڑھتے ہوئے عمل کی نشانی بھی ہے، روزانہ نمک کے غرارے کرکے اس اعصابی اکڑاؤ اور تکلیف سے نجات پائی جاسکتی ہے۔
سولہواں تا انیسواں روزہ:
اس دوران روزے دار کا جسم پوری طرح بھوک اور پیاس کو برداشت کرنے کا عادی ہو چکا ہوتا ہے، روزدے دار خود کو چاک و چو بند اور چست محسوس کرتا ہے، ان دنوں تک پہنچتے پہنچتے روزے دار کی زبان بالکل صاف اور سرخی مائل ہو جاتی ہے، سانسوں میں بھی تازگی سی آجاتی ہے، جسم سے سارے زہریلے مادے ختم ہو چکے ہوتے ہیں، نظام ہاضمہ مرمت ہونے کے بعد درست افعال شروع کر چکا ہوتا ہے، جسم سے فالتو چربی،فاسد اور زہریلے مادوں کا اخراج ہو چکا ہوتا ہے، بدن اپنی پوری طاقت کے ساتھ اپنے فرائض ادا کرنا شروع کر دیتا ہے۔
بیسواں روزہ تا اختتام رمضان:
20روزے رکھ لینے والے روزے دار کا دماغ تیز اور یاد داشت بہت بہتر ہو جاتی ہے، توجہ اور سوچ کے ارتکاز کی صلاحیت میں اضافہ ہوتا ہے، روزے دار کا جسم اور روح آخری عشرے کی برکات بھر پور انداز میں سمیٹنے کے قابل ہو جاتے ہیں۔
روحانی کے ساتھ ان تمام جسمانی فوائد سے استفادے کے لیے ضروری ہے کہ روزے دار سحری تا افطار کھانے پینے کے معاملات میں اعتدال کا راستہ اپنائے، تلی ہوئی چیزوں کے بجائے صحت بخش غدا بالخصوص پھل، ان کے رس، دودھ اور دہی کا زیادہ استعمال کرے، مرچ مسالے سے بھرپور مرغن غذاؤں سے مکمل یا حتیٰ الامکان پرہیز کرے اور پیٹ کوحلق تک بھرنے کی کوشش تو بالکل نہ کرے کہ اس سے انسانی جسم اور صحت پر اچھے کے بجائے برے اثرات ہی مرتب ہوسکتے ہیں۔
روزے دار کا جسم اعتدال کی راہ اپناتے ہوئے جب 29 ویں روزے تک پہنچتا ہے تو اس کا جسم بھوک اور پیاس کا اتنا عادی ہوجاتا ہے کہ وہ چاہتا ہے کہ 29 کے بجائے 30 ہی روزے ہوں تو بہتر ہے تاکہ ناصرف یہ کہ رمضان کا ایک اور دن ملنے کے بعد اس سے زیادہ سے زیادہ اجر سمیٹا جاسکے بلکہ اس کے فوائد سے بھی مستفید ہوا جاسکے، یہی جذبہ اسے شش عیدی کے روزے رکھنے پر بھی ابھارتا ہے۔