حضرت مقدامؓ سے مروی ہے کہ حضور اقدس ﷺ نے فرمایا: ’’ اُس کھانے سے بہتر کوئی کھانا نہیں جس کو کسی نے اپنے ہاتھوں سے کام کرکے حاصل کیا ہے، اور بے شک اﷲ کے نبی داؤدؑ اپنی دست کاری سے کھاتے تھے۔‘‘ (بخاری)
حضرت ابوہریرہؓ سے مروی ہے کہ حضور ﷺ نے ارشاد فرمایا: ’’ اﷲ پاک ہے اور پاک ہی کو دوست رکھتا ہے اور اﷲ تعالیٰ نے مومنین کو بھی اُسی کا حُکم دیا ہے جس کا رسولوں کو حکم دیا، اُس نے رسولوں سے فرمایا: اے رسولو! پاک چیزوں سے کھاؤ اور اچھے کام کرو۔ اور مومنین سے فرمایا: اے ایمان والو! جو کچھ ہم نے تم کو دیا اُن میں پاک چیزوں سے کھاؤ۔ پھر بیان فرمایا کہ ایک شخص طویل سفر کرتا ہے جس کے بال پریشان ہیں اور بدن گرد آلود ہے (یعنی اُس کی حالت ایسی ہے کہ جو دُعا کرے وہ قبول ہو) وہ آسمان کی طرف ہاتھ اُٹھا کر یارب، یارب کہتا ہے ( دُعا کرتا ہے) مگر حالت یہ ہے کہ اُس کا کھانا حرام، پینا حرام، لباس حرام اور غذا حرام پھر اُس کی دُعا کیوں کر مقبول ہو۔ یعنی اگر قبول کی خواہش ہو تو کسب حلال اختیار کرو کہ بغیر اس کے قبول دُعا کے اسباب بے کار ہیں۔ (صحیح مسلم)
حضرت ابوہریرہؓ سے مروی ہے کہ حضور اقدس ﷺ نے ارشاد فرمایا: ’’ لوگوں پر ایک زمانہ ایسا آئے گا کہ آدمی پر وا بھی نہیں کرے گا کہ اس چیز کو کہاں سے حاصل کیا ہے حلال سے یا حرام سے۔‘‘ (صحیح بخاری)
ام المؤمنین عائشہ صدیقہؓ روایت کرتی ہے کہ حضور اقدس ﷺ نے فرمایا: ’’ جو تم کھاتے ہو اُن میں سب سے زیادہ پاکیزہ وہ ہے جو تمہارے کسب سے حاصل ہے اور تمھاری اولاد بھی منجملہ کسب کے ہے۔‘‘ (ترمذی)
حضرت رافع بن خدیجؓ روای ہیں کہ رسول مقبول ﷺ سے معلوم کیا گیا کہ سب سے زیادہ پاکیزہ کمائی کون سی ہے ؟ آپؐ نے فر مایا: ’’ انسان کا اپنے ہاتھ سے کو ئی کام کرنا اور ہر وہ تجارت جو مقبول ہو یعنی شرعی اصول و قوانین کے مطابق ہو۔‘‘ (مشکوۃ)
آپؐ کے اس ارشاد کا حاصل یہ ہے کہ سب سے بہتر تو وہ کسب و پیشہ ہے، جس میں انسان کو اپنے ہاتھوں سے محنت کرنا پڑتی ہو اور اگر کو ئی شخص ہاتھوں کی محنت والا کسب اختیار نہ کرسکے تو پھر ایسی تجارت کے ذریعے اپنی حلال روزی پیدا کرے جس میں دیانت و امانت کی روح بہ ہر صورت کار فرما رہے، کیوں کہ ایسی تجارت بھی پاک اور حلال کسب (کمائی ) ہے۔
حضرت عبداﷲ بن مسعود ؓ کہتے ہیں کہ رسول اکرم ﷺ نے فرمایا : ’’ حلال اور پاک روزی کمانا فرض ہے فرائض کے بعد۔‘‘ (مشکوۃ شریف) یعنی اپنی اور اپنے اہل و عیال کی معاشی ضروریات کی کفالت کے لیے اپنے دست و بازو کی محنت سے کمانا فرض ہے، لیکن اﷲ تعالیٰ نے جو فرائض مقرر کیے ہیں جیسے نماز، روزہ، زکوۃ، حج وغیرہ پہلے ان کا درجہ ہے، ان فرائض کی ادائی کے ساتھ حلال روزی کمانا فرض ہے۔
اس حدیث میں کمانے کو فرض قراردیا گیا ہے۔ یاد رکھنا چاہیے کہ کمانا فرض بھی ہے اور مستحب بھی، اور اسی طرح مباح بھی ہے اور حرام بھی، چناں چہ اتنا کمانا فرض ہے جو کمانے والے اور اس کے ا ہل و عیال کی معاشی ضروریات کے لیے اور اگر اس کے ذمے قرض ہو تو اس کی ادائی کے لیے کافی ہوجائے اور اس سے زیادہ کمانا مستحب ہے، بہ شرطے کہ اس نیت کے ساتھ زیادہ کمائے کہ اپنے اور اپنے اہل و عیال کی ضروریات سے جو بچے گا وہ فقراء و مساکین اور اپنے دوسرے مستحق اقرباء پر خرچ کروں گا، اسی طرح ضروریات زندگی سے زیادہ کمانا اس صورت میں مباح ہے، جب کہ نیت اپنی شان و شوکت اور اپنے وقار و تمکنت کی حفاظت ہو، البتہ محض مال و دولت جمع کرکے فخر و تکبر کے اظہار کے لیے زیادہ کمانا حرام ہے، اگرچہ حلال ذرایع ہی سے کیوں نہ کمایا جائے۔ ( مظاہر حق)
مسلسل حلال اور پاکیزہ رزق استعمال کرنے سے دل میں نورانیت پیدا ہوتی ہے۔ طاعات اور نیکیوں میں خاص قسم کی لذت محسوس ہوتی ہے۔ شریعت کے احکام پر عمل کرنے میں سرور و انبساط حاصل ہوتا ہے۔ ذکر و اذکار میں قلبی اطمینان و سکون نصیب ہوتا ہے۔ حلال رزق اور طیب غذا کی برکت سے اﷲ تبارک و تعالی انسان کے قلب میں حکمت کے سرچشمے جاری فرماتے ہیں، جس کی وجہ سے انسان کو حق و باطل میں تمیز کرنے کی غیرمعمولی قوت حاصل ہوتی ہے۔ دین و دنیا کے شعبے میں اﷲ تبارک و تعالی ایسے انسان کو غیر معمولی بصیرت عطا کرتے ہیں۔ چناں چہ حدیث شریف میں آتا ہے: جو شخص چالیس دن تک حلال مال استعمال کرتا ہے اﷲ تبارک و تعالی اس کے دل کو منور فرماتے ہیں، اور حکمت کے سرچشمے اس کے دل میں جاری فرماتے ہیں۔ (احیاء علوم الدین للغزالی)
حلال اور طیب غذا استعمال کرنے کا ایک فائدہ یہ ہوتا ہے کہ دعائیں قبول ہوتی ہیں، اور بندے کی مرادیں اﷲ تبارک و تعالی پوری کرتے ہیں۔ چناں چہ روایتوں میں آتا ہے کہ حضرت سعد بن وقاصؓ نے آپؐ سے درخواست کی کہ اے اﷲ کے رسول ﷺ! آپ میرے لیے مستجاب الدعوات ہونے کی دعا کر دیجیے۔ آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’حلال اور پاکیزہ غذا استعمال کرو تم مستجاب الدعوات بن جاؤ گے۔‘‘ (امام غزالیؒ)
حضرت یحیٰ بن معاذؓ فرماتے ہیں کہ اﷲ کی اطاعت و فرماں برداری اﷲ کے خزانوں میں سے ایک خزانہ ہے، اور ان خزانوں کی کنجی دعا ہے، اور حلال رزق کنجی کے دندانے ہیں۔ (احیاء علوم الدین للغزالی) چناں چہ جیسے کوئی قفل اور تالا کھولنے کے لیے چابی میں دندانے کی بڑی اہمیت ہوتی ہے، دندانے کے بغیر چابی ایک بے کار اور فالتو چیز ہے، اسی طرح دعائیں اﷲ کی بارگاہ میں اسی وقت قبول ہوتی ہیں جب کہ حلال رزق اور طیب غذا کا اہتمام ہو، حرام اور مشتبہ چیزوں سے پرہیز کرنا انسان کی عادت ہو، ورنہ اﷲ تعالی کے سامنے الحاح و زاری اور اس سے مرادیں مانگنا فضول اور بے کار ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ایک روایت میں آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ’’ بہت سے بندے جو بدحال اور پراگندہ بال ہوتے ہیں، اﷲ سے مانگنے کے لیے اپنے ہاتھ آسمان کی طرف بلند کرتے ہیں، اور کہتے ہیں: اے میرے رب! اے میرے رب! جب کہ اس کی غذا حرام ہے، اس کا کپڑا حرام آمدنی سے تیار ہوا ہے، اس کے جسم کی پرورش اور اس کی نشو و نما حرام مال سے ہوئی ہے، تو کیسے اس کی دعا قبول کی جائے گی؟‘‘ (کنزالعمال)
اکل حلال اﷲ تعالیٰ کی محبت اور اس کی جنت تک رسائی حاصل کرنے کا راستہ ہے۔ یہ دعاؤں کی قبولیت کا سبب ہے۔ اس سے عمر میں برکت اور مال میں بڑھوتری ہوتی ہے۔ دنیا کی سعادت اور آخرت میں جنت کا موجب ہے۔ گفت گو میں شیرینی اور اعمال میں جاذبیت پیدا کرتا ہے۔ حلال کمائی سے نسل میں برکت ہوتی ہے۔ اپنی محنت کی کمائی انسانی شرافت اور رفعت کا باعث ہے۔
حدیث قدسی میں حضرت ابوذرؓ سے مروی ہے کہ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اﷲ فرماتے ہیں (مفہوم) : ’’ اے میرے بندو! میں نے اپنی ذات پر ظلم کو حرام کرلیا ہے اور تم پر بھی آپس میں اسے ایک دوسرے پر حرام قرار دیا ہے، اس لیے تم ایک دوسرے پر ظلم نہ کرو۔ اے میرے بندو! تم میں سے ہر شخص گم راہ ہے، سوائے اس کے جسے میں نے ہدایت عطا کی، تم مجھ سے ہدایت طلب کرو میں تمہیں ہدایت دوں گا۔ اے میرے بندو! تم میں سے ہر شخص بھوکا ہے سوائے اس کے جسے میں نے کھلایا، تم مجھ سے کھانا مانگو میں تمہیں کھلاؤں گا۔
اے میرے بندو! تم میں سے ہر شخص ننگا ہے، سوائے اس کے جسے میں نے پہنایا، تم مجھ سے لباس طلب کرو، میں تمہیں کپڑے پہناؤں گا۔ اے میرے بندو! تم صبح شام گناہ پر گناہ کیے جاتے ہو اور میں تمہارے سارے گناہوں کو بخشتا رہتا ہوں، تم مجھ سے معافی طلب کرو، میں تمہارے گناہوں کو بخش دوں گا۔ اے میرے بندو! تم نہ تو اس بات پر قادر ہوکہ مجھے نقصان پہنچا سکو اور نہ ہی اس بات کی طاقت رکھتے ہو کہ مجھے فائدہ پہنچا سکو۔
اے میرے بندو! تمہارے اول سے لے کر آخر تک، انسان سے لے کر جنات تک، تمام کے تمام اس کائنات کے سب سے زیادہ متقی شخص کی طرح ہوجائیں تو اس سے میری سلطنت میں کوئی اضافہ نہیں ہوگا۔ اے میرے بندو! تمہارے اول سے لے کر آخر تک، انسان سے لے کر جنات تک، تمام کے تمام اس کائنات کے سب سے زیادہ بدکار شخص کی طرح ہوجائیں تو اس سے میری سلطنت میں کوئی کمی نہیں ہوگی۔ اے میرے بندو! تمہارے اول سے لے کر آخر تک، انسان سے لے کر جنات تک، تمام کے تمام ایک میدان میں جمع ہوجائیں، اور مجھ سے مانگتے جائیں اور میں ہر شخص کی دلی مرادیں پوری کردوں، اس سے میرے خزانوں میں اتنی بھی کمی نہیں آئے گی جتنا کہ سوئی کو سمندر میں ڈبونے سے سمندر کے پانی میں کمی ہوتی ہے۔ اے میرے بندو! یہ تمہارے اعمال ہیں جسے میں نے شمار کرکر کے رکھا ہے اور پھر ہر ایک کا میں بھرپور بدلہ دوں گا، جو شخص بھلا بدلہ پائے تو وہ اﷲ کا شکر ادا کرے، اور جو اس کے سوا پائے تو سوائے اپنے آپ کے اور کسی کو ملامت نہ کرے۔‘‘ (مسلم)
اﷲ تعالیٰ ہمیں حلال کمانے کی توفیق عطا فرما کر لقمۂ حرام سے بچائے رکھے۔ آمین
مولانا رضوان اﷲ