اگست 2014ءمیں جب تبدیلی کی ہوا چلی تو میرے جیسا ہرایک پاکستانی سمجھ رہا تھا کہ اب برے دن ختم ہونے کو ہیں، اب ہم کو ”نیا پاکستان“ ملے گا۔پھر اس نئے پاکستان میں کوئی غریب نہیں رہے گا، گھر گھر تعلیم ملے گی، ڈاکٹرز بیگ اٹھائے ادویات لیکر گھر کی دہلیز پر کھڑے ہونگے ”بھائی کوئی بیمار تو نہیں“ تھانوں میں رشوت نہیں لی جائے گی، ملک امن کا گہوارہ بن جائے گا، چور لٹیرے ملک سے بھاگ جائیں گے، اسمبلیوں میں صاف ستھرے نمائندے آئیں گے۔
اِس تبدیلی کے لیے ڈھائی ماہ کے لیے دھرنا بھی دیا گیا جہاں یہ اعلان بھی سننے کو ملا کہ جب تک چور لٹیرے ایوانوں میں موجود ہیں ہم نہیں جائیں گے، تین سال ہوگئے لیکن ہوا کیا؟ کچھ بھی نہیں۔ نہ تم بدلے، نہ ہم بدلے نہ بدلہ پاکستان۔
پوری دنیا میں پانامہ پیپرز کے انکشافات کے بعد جہاں پوری دنیا میں طوفان کھڑا ہوا،کچھ حکمرانوں کو اپنی حکومت سے ہاتھ دھونا پڑا تو کچھ کے خلاف تحقیقات کا شکنجہ تیار کیا گیا تو پاکستان میں بھی وزیر اعظم نواز شریف اور ان کے خاندان سمیت حزب اختلاف،تاجروں،بیورو کریسی کے بڑے بڑے کھلاڑیوں کے نام آنے پر بھی ہرطرف مختلف مطالبات کی ہوا چلی،سب سے بڑا مطالبہ وزیر اعظم کا استعفیٰ تھا ،وزیر اعظم نے اپنے کو احتساب کیلئے پیش کرکے جان چھڑانے کی کوشش کی لیکن جان نہ چھوٹ پائی،پانامہ پیپرز حکومت کیلئے گلے کی ہڈی بنی ہوئی نہ نیچے اتر رہی ہے اور نہ باہر آرہی ہے،کئی انقلابیوں اور کھلاڑیوں کی طرح میں بھی اس خوش گمانی میں مبتلا تھا کہ وزیر اعظم استعفیٰ دے دیں گے،نواز شریف اور ان کا خاندان جیل میں ہوگا افسوس کہ سب ارمان پانی میں بہہ گئے،اس احتجاج سے حکومت کو توکچھ نہیں ہولیکن کچھ لیڈر ز بے نقاب ہوگئے ہیں۔
کپتان کا یو ٹرن نئی بات نہیں’ پہلے بھی ایسا ہوتا رہا،126کے دن کے دھرنے میں اتنی بار یو ٹرن لیے کہ گھوم پھر کر جس پارلیمنٹ کو جعلی قرار دیا اسی میں واپس آگئے،کپتان کے اس فیصلے سے سوشل میڈیا پر تو ہا ہا کار مچی، کپتان کو تھوکا چاٹنے کے طعنے بھی ملے۔ کئی لوگ اسے سیاسی ڈیل کا نام دیتے رہے ہیں تو کچھ متوالے اس کو انصافیوں کی شکست۔
کپتان اور ان کی ٹیم کیا قوم کو بتائے گی کہ جو 7 ماہ تک تماشا لگایا گیا، قوم کا وقت برباد کیا گیا، اب ہم اس کے بارے میں کیا رائے قائم کریں؟۔۔۔ جہاں تک ہم جانتے ہیں کہ جوڈیشل کمیشن تو ابھی تک بنا بھی نہیں صرف اس پر اتفاق ہوا ہے اور اگر سپریم کورٹ چاہے تو وہ ایسے کسی بھی فیصلے کو کالعدم قرار دے سکتی ہے توجشن کس بات پر منایا جارہا ہے،اب بھی مستقل مزاجی دکھائی جائے گی یا پھر صفر سے شروع ہوجائیں گے۔
اور اگر سپریم کورٹ نے کپتان اور وزیر اعظم دونوں کو نااہل قر ار دے دیا تو پھر کیا ہوگا؟ نواز شریف پھر سرخرو ہوتے ہیں توکیا پھر کپتان اسی وزیر اعظم کو تسلیم کرلیں گے جس کا نام نواز شریف ہے؟ جی جی وہی نواز شریف جس کو عمران خان جعلی وزیراعظم تصور کرتے ہیں۔
تحریک انصاف کا دھرنا ،لانگ مارچ،تحریک کوئی تبدیلی لائی یا نہ لائی ہو مگر تین سال کا ڈرامہ معاشرے میں عدم برداشت اور طوفان بدتیمزی کا کلچر ضرور لایا ہے۔ نوجوانوں کو باغی بنایا ہے۔ کہتے ہیں کہ ”ہرعمل کا ایک ردعمل ہوتا ہے، رفتار برابر لیکن سمت مختلف ہوتی ہے“۔
بچے بھی ملک کے انتظامی سربراہ کو مجرم سمجھنے لگے ہیں، مثبت اور منفی دونوں ردعمل معاشرے کو اپنی لپیٹ میں لے رہے ہیں۔ ایک جانب ”گلو بٹ“ کے کردار نے جنم لیا ہے تو دوسری طرف ”اوئے“ جیسی اصطلاح بھی فروغ پارہی ہے۔
اب ہوگا یہ کہ کیس میں چا ر سے پانچ سماعتیں ہوں گی اور آخری سماعت میں فیصلہ قبول کرنے اور اپیل نہ کرنے کا وعدہ لیا جائے گا، عمران خان اور نواز شریف سے اثاثہ جات اور آف شور کمپنیوں کے بارے پوچھا جائے گا،باقی ملوث لوگوں سے بھی پوچھاجائے گا،غلط بیانی پر نواز شریف اور عمران خان دونوں نااہل ہوجائیں گے،اس کیس میں دونوں بچ جائیں گے یا دونوں رگڑے جائیں گے،ہوسکتا ہے ایک بچ جائے گا دوسرا رگڑا جائے۔