کراچی:
قرنطینہ ڈپارٹمنٹ کی جانب سے ملک کی زراعت کے لیے خطرہ قرار دیے جانے کے بعد درآمد کنندگان نے درآمدی پھلوں کے20کنٹینرز ری شپ (واپسی) کا فیصلہ کرلیا ہے۔
قرنطینہ ڈپارٹمنٹ نے فائیٹو سینٹری سرٹیفکیٹ کے بغیر درآمد ہونے والے پھلوں کو پاکستان کے زرعی شعبے کے لیے خطرہ قرار دیتے ہوئے کلیئر کرنے سے انکار کردیا تھا اور درآمدکننگان پر واضح کیا تھا کہ مذکورہ کنسائنمنٹس واپس نہ بھجوائی گئی تو تلف کردی جائے گی جس کے بعد درآمد کنندگان نے مذکورہ کنٹینرز واپس بھیجنے کا فیصلہ کرلیا ہے اور اس حوالے سے دستاویزی عمل شروع کردیا گیا ہے۔
درآمد کنندگان کے مطابق مصر، مراکش اور ساؤتھ افریقہ سے درآمد کیے جانے والے مالٹے کے 20کنٹینرز ان ملکوں کو واپس کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے جس سے درآمد کنندگان کو 6سے 7کروڑ روپے کے نقصان کا سامنا ہے۔
دوسری جانب پلانٹ پروٹیکشن ڈپارٹمنٹ کا کہنا ہے کہ مذکورہ کنسائمنٹ دبئی کی دستاویزات پر درآمد کیے گئے اور ان کے ساتھ اصل اوریجن کے فائیٹو سینٹری سرٹیٖفکیٹ بھی منسلک نہیں کیے گئے جس کی وجہ سے یہ کنسائمنٹ پاکستان کے زرعی شعبے کے لیے خطرہ بن سکتے ہیں ماضی میں بھی غیرقانونی طریقے سے درآمد ہونے والی زرعی مصنوعات کی وجہ سے پاکستان میں زرعی بیماریاں پھیل چکی ہیں جن سے پاکستان کی معیشت کو سخت نقصان کا سامنا کرنا پڑا۔
ماہرین کے مطابق دنیا بھر میں زرعی مصنوعات اورپودوں کی تجارت کے لیے سخت قرنطینہ قوانین کا اطلاق کیا جاتا ہے اور جن ملکوں سے مذکورہ پھل درآمد کیے گئے وہ ممالک بھی پاکستان کی زرعی مصنوعات پر سخت قرنطینہ قوانین لاگو کرتے ہیں۔ ایران سے زمینی راستے سے درآمد ہونے والے سیب کی کنسائمنٹس کو بھی سخت جانچ پڑتال سے گزارا جارہا ہے ایران سے آنے والے سیبوں کی کھیپ کو لیبارٹری ٹیسٹ کے بعد کلیئر کیا جارہا ہے جس کی وجہ سے کلیئرنس میں تاخیر کا سامنا ہے اور پورٹ پر ڈیمرج اور ڈٹینشن کی مد میں اضافی اخراجات کی وجہ سے درآمدی لاگت بھی بڑھ رہی ہے۔
علاوہ ازیں آل پاکستان فروٹ اینڈ ویجیٹیبل ایکسپورٹرز، امپورٹرز اینڈ مرچنٹس ایسوسی ایشن نے قرنطینہ ڈپارٹمنٹ کی جانب سے قوانین کے سختی سے اطلاق کی حمایت کرتے ہوئے درآمد کنندگان کے نقصانات کے پیش نظر بندرگاہوں پر پہنچنے والی کھیپ ایک مرتبہ کے لیے کلیئرکرنے کی سفارش کی ہے۔