حکومت کی جانب سے ماوے اور گٹکا تیارکرنے والے اور فروخت کرنے والوں کے خلاف کریک ڈاﺅن شروع ہو نے کے باوجود بھی شہر میں کھلے عام ماوا اور گٹکا فروخت کیا جارہا ہے

کراچی ( رپورٹ اشتیاق شاہ)شہر میں ایک بار پھر پولیس کی سرپرستی میں مضر صحت ماوے کی خریدو فروخت کا سلسلہ زور پکڑ گیا شہر میں 50 سے زائد گٹکے بنانے کے کارخانے کام کررہے ہےںجن میں 100 سے زائد مختلف ناموں سے ماوے تیار کرکے شہر بھر میں کھلے عام فروخت کئے جارہے ہےں، حکومت کی جانب سے ماوے اور گٹکا تیارکرنے والے اور فروخت کرنے والوں کے خلاف کریک ڈاﺅن شروع ہو نے کے باوجود بھی شہر میں کھلے عام ماوا اور گٹکا فروخت کیا جارہا ہے ، امت کی تحقیقات کے مطابق شہر بھر میں کھلے عام پان کی دکانوں،کیبنوں اور کچی آبادیوں میں پرچون کی دکانوں پر بھی مضر صحت ماوا کھلے عام فروخت ہورہا ہے، شہر میں 100 سے زائد ناموں سے ماو فروخت ہورہا ہے جبکہ بعض کارخانوں میں ایک سے زائد ناموں سے ماوا بنا کر شہر میں فروخت کے لیے لایا جاتا ہے عام طور پر شہر میں جوماوے زیادہ فروخت ہورہے ہےں ان میںکراچی ماوا، گولیمار ماوا ، قادری ماوا ، لکی اسٹار ماوا ، ما ما ماوا ، پی کے ماوا ، شاہین ماوا، بمبی ماوا ،دبئی ماوا، فائیو اسٹا ماوا ، کفیل ماوا، گودھرا ماوا،،شاہین ماو، کامی ماوا،چورا ماوا،سونی ماوا، بابا ماوا، موسی ماوا، نیوعارف ماوا،یونس ماوا، ہاویدماوا، شداماوا، فضل ماوا، فیصل ماوا، صنم ماوا، گولڈن ماوا ، وی آئی پی ماوا ، یاسین ماوا ، کراچی نمبر ون ماوا، نیو عارف اسپیشل ماوا، جان جانی ماوا،اے ون گٹکا ماوا، عارف مین پوری ، آفتاب مین پوری ، نصیب مین پوری، کامران ماوا، اسٹار ماوا، سیون اسٹار ماوا سمیت کئی ناموں سے ماوے فروخت ہورہے ہےں کراچی میں تیار ہونے والے ماوے کے کارخانے زیادہ تر شہر کی کچی آبادیوں میں ہےں جہاں مضر ماوا تیار کیا جاتا ہے ،ذرائع کے مطابق کراچی کے تین اضلاع جن میں سینٹر ، کورنگی ، اور ملیر کے علاقے شامل ہیں ، معتلقہ علاقوں کی پولیس اور محکمہ صحت کا عملہ مذکورہ کارخانوں کے مالکان سے ہفتہ وار بھتہ وصول کرتا ہے امت کو معلوم ہوا ہے کہ ہر تھانے کا بیٹر جانتا ہے کہ اس کے علاقے میںماوے کے کتنے کارخانے ہےں اور کتنے پیکنگ پوائنٹس ہےں جہاں سے ہفتہ وار تھانے کو بھتہ آتا ہے پولیس ان کے خلاف کارروائی نہیں کرتی ہے جبکہ کینسر کے عالمی دن یا اعلی افسران کے دباﺅ پر معمولی کارروائی کی جاتی ہے اور ایک دو ورکرز کو پکڑ کر چند ہزارماوے کی پڑیاں برآمد کرتے ہےں اور پھر معاملہ دبا دیا جاتا ہے علاقہ مکین پولیس کو ماوے کے کارخانوں کے خلاف درخواستیں دیتے ہےں تو پولیس کارروائی کرنے سے گریز کرتی ہے ذریعے سے معلوم ہوا ہے کہ ماوے کے کارخانے زیادہ تر خالی پلاٹوں پر قائم کیے جاتے ہےں اور یہاں سے پولیس کے بیٹر ہفتہ وار بھتہ وصول کرتے ہےںذریعے سے معلوم ہوا ہے سینٹر کے علاقے سر سید ، نیو کراچی ، خواجہ اجمیر نگری ، بلال کالونی اور نیو کراچی صنعتی ایریا میں کھلم کھلا گٹکے ماوا فروخت کیا جا رہا ہے ، ذرائع سے معلوم ہوا ہے کہ سر سید کے علاقے میں ناگن چورنگی دہلی شیر مال والے اقبال بلازہ کو گرین بلٹ گٹکا ماوا کا سیلز پوائینٹ بنا رکھا ہے ، ذرائع سے معلوم ہوا ہے کہ مزکورہ جگہ پر روزانہ مختلف گاڑیوں میں گٹکا اور ماوا بڑی تعدار میں لایا جا تا ہے ، جبکہ یہاں سے موٹر سائیکلوں کے زریعے ناتھ ، نیو کراچی کے مختلف علاقوں میں سپلائی کیا جا رہا ہے ، ذرائع کا کہنا تھا کہ بلال کالونی کے علاقے سیکٹر 5J خوشبودار پان مصالحہ کے نام پر بکنے والا فائیو اسٹار ماوے کا سپلائی کا پوائینٹ بنا ہوا ہے ، مزکورہ مقام سے بھی مضر صحت گٹکے ماوے کی سپلائی کی جاتی ہے ،ذرائع کا کہنا تھا کہ فائیو اسٹار ماوے کے مالکان رستم اور عثمان عرف لنگڑا کی سرپرستی میں تیار ہونے والا مضر صحت گٹکے اور ماوے سر جانی ، نیو کراچی کے مختلف سیکٹرز جن میں 5E ,5D ,5L, 5M , میں قائم پان کے کیبنوں میں پولیس کی آشیر باد میں کھلم کھلا فروخت کیا جا رہا ہے ، ذرائع سے معلوم ہوا ہے کہ ملیر کے علاقے سکھن تھانے کی حدود جمعہ خمتی گوٹھ کچی آبادی میں یاسین نامی شخص نے گٹکے ماوے کا ر خانہ قائم کیا ہوا ہے ، جو کہ بھینس کالونی کے نام سے مشہور ہے ، ذرائع کا کہنا تھا کہ جمعہ خمتی گوٹھ میں قائم کار خانے کا گٹکا اور ماوا ، کیٹل کالونی ، بن قاسم ، اسٹیل ٹاو ¿ن ، شاہ لطیف اور ملیر سٹی کے علاقے تک سپلائی کیا جاتا ہے ،ذرائع سے معلوم ہوا ہے کہ شاہ لطیف ٹاو ¿ن کی حدود خسن پھنور گوٹھ میں مضر صحت گٹکے ماوے کی کارخانہ عادل عرف بلا ، شکیل عرف ڈاکٹر اور لاشاری نامی شخص چلا رہے ہیں ، مزکورہ کارخانے میں کیپٹن ماوا تیار کیا جاتا ہے ، ذرائع کا کہنا تھاکہ کار خانے کے مالکان لانڈھی کے رہائشی ہیں ، ذرائع سے معلوم ہوا ہے کہ ملیر اور کورنگی کے تھانوں جن میں الفلاح ، سعود آباد ، شاہ فیصل کالونی ،ماڈل کالونی اور کھراپارکے علاقے میں ساجد عرف جن کا مضر صحت گٹکا ماوے ، بدنام زمانہ پولیس بپٹر طارق منہاس اپنے کاندوں کے زریعے سپلائی کر واتا ہے ، ذرائع کا کہنا تھا کہ مزکورہ پولیس بیٹر اس قدر بااثر ہے اس کے علاقے میں اگر کوئی اور گٹکا ماوا سپلائی کرنے آتا ہے تو مقامی پولیس کے زریعے ایسے گرفتار کر وادیتا ہے ، ذرائع سے معلوم ہوا ہے کہ کورنگی نمبر ڈھائی بنگالی پاڑھ میں جیلانی ماوا، مارواری ماوا، عارف ماوا ، گولڈن ماوا اور سونی ماوا تیار کیا جاتا ہے جہاں مرداورعورتیں کام کرتی ہے عام طور پر کارخانوں میں 6سے 7 لوگ ماوا تیار کرتے ہےں جبکہ پیکنگ 50 سے زائد افراد کرتے ہےں ،انتہائی باخبر ذرائع نے امت کو بتایا کہ ناصر کالونی ، ڈی ایریا، تین نمبر کورنگی ، ڈیڑھ نمبر کورنگی اور ٹی ایریا میں گٹکے کے کارخانے چل رہے ہیں ، ذرائع کا کہنا ہے کہ ناصر کالونی میں دانش نامی شخص عارف نام سے گٹکا اور ماوا بنا رہا ہے ،ذرائع کا کہنا ہے کہ آئی جی سندھ کے احکامات کے بعد ایس ایچ او کورنگی نے دانش کا کارخانہ بند کروادیا تھا لیکن ایس ایچ او نے بھتہ دگنا کرنے کے بعد دانش کو دوبارہ کارخانہ کھولنے کی اجازت دے دی ہے ، ذرائع کا کہنا ہے کہ دانش کے کارخانے میں روزانہ کی بنیاد پر 5 ہزار کلو سے زائد گٹکا تیار کیا جاتا ہے اور اس کی تیاری کیلئے کم عمر نوجوان لڑکے اور لڑکیاں کام کرتی ہیں ، ذرائع کا کہنا ہے کہ ڈی ایریا میں زاہد، راحیل ، خرم ، شاہد، شبیر اور ندیم نامی شخص گٹکے اور ماوے کا کارخانہ چلا رہے جہاں پر شاہین ، ہاوید، جاوید اور فضل کے نام سے گٹکا اور ماوا تیار کیا جاتا ہے ، ذرائع کا کہنا ہے کہ مذکورہ اڈوں سے رات کی تاریکی میں سوزوکی میں گٹکا اور ماوا لوڈ کرکے علاقے کی دکانوں میں فروخت کیا جاتا ہے ، ذرائع کا کہنا ہے کہ مذکورہ اڈوں کے مالکان ایس ایچ او کو روزانہ کی بنیاد پر 50 ہزار روپے بھتہ دے رہے ہیں ، کورنگی ڈیڑھ نمبر پر یونس ، جاوید ، شکیل اور عاصم نے گٹکے کے کارخانے کھول لیے ہیں، ذرائع کا کہنا ہے کہ ان تینوں گٹکے کے کارخانوں پر مختلف ناموں سے گٹکا اور ماوا تیا رکیا جاتا ہے ، کورنگی ٹی ایریا میں سلمان نامی شخص ہاوید کے نام سے گٹکا بنا رہا ہے ، جہاں سے پولیس روزانہ کی بنیاد پر لاکھوں روپے بھتہ وصول کررہی مذکورہ اڈوں پر پولیس کوئی کارروائی نہیں کرتی ہے ،لانڈھی نمبر چار میں عارف مین پوری ، عارف بنارہا ہے ، لانڈھی نمبر 4 میں ہی آفتا ب مین پوری بنائی جارہی ہے جس کا مالک حمید ہے ، لانڈھی نمبر 6 میں نصیر مین پوری بنائی جارہی ہے جس کا مالک شفیق ہے اس کے کارخانے میں 30 سے زائد افراد کا م کرتے ہےں کورنگی نمبر 4 میں کامران گٹکا، کورنگی سیکٹر 36/B میں عارف گٹکا اقبال نامی شخص بنا رہا ہے ، کورنگی سیکٹر 48/B میں اسٹار گٹکا سیون اسٹار گٹکا سہیل کے کارخانے میں بن رہاہے جہاں سے صبح کے وقت سوزوکی اور موٹر سائیکل پر بوریوں میں گٹکا سپلائی ہوتا ہے، گلگت کالونی میں بابا گٹکا ، یونس گٹکا یونس نامی شخص کے کارخانے میں تیا ر کیے جارہے ہےں ،کورنگیR چوکی کی حدود میں معین اور شبیر گٹکا ، کورنگی سیکٹر R میں متین گٹکا ، رئیس گٹکا، ناگوری رئیس گٹکا رئیس نامی شخص بنا رہا ہے کورنگی پی ایم ٹی کالونی میں ریاض مین پوری بنائی جارہی ہے ، عام طور پر گٹکا بنانے کا کام ریڑھی گوٹھ کے ہر دوسرے گھر میں ہوتا ہے اور اس کو ابراہیم حیدری ،مچھر کالونی ، فشری اور دیگر ساحالی علاقوں میں سپلائی کیا جاتا ہے ۔ مذکورہ گٹکے کے کارخانے میں ہر چند ماہ بعد چھاپہ مارا جاتا ہے اور پھر بھتے کی رقم بڑھا کرکام پھر شروع ہو جاتا ہے، ذرائع کا کہنا ہے کہ پان کے کیبن مالکان بھی اپنے گھروں میں پولیس سے چھپ کر نئے ناموں سے پانچ سے چھ کلو گٹکا تیار کرکے اپنی دکانوں پر فروخت کرتے ہیں ، ذرائع سے معلوم ہوا ہے کہ سرجانی ٹاﺅن سیکٹر ایل ون اور فائیو ڈی میں واقع پان کے کیبن اور جنرل اسٹور پر بھی کھلے عام گٹکا فروخت کیا جارہا ہے ، ذرائع کا کہنا ہے کہ پان کے کیبن والے اپنے گھروں میں پانچ سے چھ کلو چھالیہ کا ماوا اور گٹکا خود تیار کرکے اپنے کیبن پر فروخت کررہے ہیں ، کیونکہ علاقہ پولیس صرف مین سڑکوں پر گشت کرتی ہے جس کی وجہ سے اندر گلیوں میں واقع پان کی دکان اور جنرل اسٹور پر کھلے عام گٹکا فروخت کیا جارہا ہے ، ذرائع کا کہنا ہے کہ سرجانی ٹاﺅن سیکٹر فور بی میں ہونےوالی چائنا کٹنگ میں سلیم اور عدیل جنریٹر نے مل کر دبئی ماوا بنانے کا کارخانہ بنایا ہوا ہے ، جہاں پر رات کے وقت مضر صحت ماوا تیار ہوکر مشینوں کے ذریعے پیک کرکے رات کی تاریکی میں علاقے میں فروخت کیا جارہا ہے ، ذرائع سے معلوم ہوا ہے کہ نارتھ کراچی ہائی اسٹار اسکول کے عقب میں بھی فائیو اے ٹو کے نام سے ماوا تیار کیا جارہا ہے ،جبکہ پیلا اسکول کے عقب میں واقع آبادی میں تین سے چار گھروں میں مضرصحت ماوا تیار کرکے رات کی تاریکی میں ماوا سپلائی کیا جاتا ہے ، ذرائع کا کہنا ہے کہ سرسید تھانے کی حدود ناگن چورنگی پر واقع پان کے کیبن پر مختلف ناموں سے ماوا پولیس کی سرپرستی میں فروخت ہورہا ہے، مذکورہ کیبنز پر کیبن مالکان بلاخوف گودھرا، دبئی ، اسٹار سمیت دیگر ماوے فروخت کررہے ہیں ، ذرائع کا کہنا ہے کہ پان کے کیبن پر عرفان نامی شخص گٹکا سپلائی کرتا ہے اس کے علاوہ کسی کو بھی پان کے کیبن پر گٹکا سپلائی کرنے کی اجازت نہیں ہے ، اس نے پا ن کے کیبن مالکان کو پابند کیا ہے کہ اگر انہوں نے اسکے مال کے علاوہ کوئی اور ماوا بیچا تو وہ پولیس سے گرفتار کروادیگا ، ذرائع کا کہنا ہے کہ عرفان نے ایک لاکھ روپے ہفتہ کی موکل لی ہے جس کے بعد وہ کھلے عام پولیس کی سرپرستی میں رات کے وقت پان کے کیبن پر گٹکا سپلائی کرتا ہے ۔

کراچی(اسٹاف رپورٹر)سرکاری اسپتالوں میں یومیہ 20 سے زائد ایسے مریض لائے جارہے ہےں جو مضر صحت گٹکا کھانے سے کینسر کے مرض میں مبتلا ہورہے ہےں تفصیلات کے مطابق گٹکا کھانے سے سب زیادہ متاثر منہ ،خوراک کی نالی اور معدہ ہوتا ہے چونکہ گٹکے کو کئی گھنٹوں منہ میںرہنا ہوتا ہے لہذا گٹکے میں موجود مضر صحت کیمیکلز معدے کی تیزابیت ، بھوک کی کمی حتی کہ منہ اور زبان کے کیسنر کا بھی سبب بن جاتے ہےں گٹکے کے کثرت سے استعمال کی وجہ سے دانت بی شدید متاثر ہوتے ہےں اور تیزی سے گرنا شروع ہوجاتے ہےں جبکہ مسوڑھوں کے پھولنے منہ کے چھالوں حلق کے پکنے اور مسوڑھوں میں پیپ کے پیدا ہونے کی شکایات بھی عام ہوتی ہے، گٹکا استعمال کرنے والے اشخاص کی لاپروائی گٹکا ترک نہ کرنے کی وجہ سے منہ ، زبان اور حلق کا کینسر ہوجاتا ہے جس کا واحد علاج متاثرہ حصے کو کاٹ کر جسم سے الگ کرنا ہوتا ہے ، گٹکے کے مستقل استعمال سے سستی مدہوشی اور متلی کی شکایت عام طور پر گٹکا کھانے والے افراد میں پائی جاتی ہےںجناح اسپتال کی شعبہ ایمرجنسی کی انچارج سیمی جمالی نے بتایا کہ مضر صحت گٹکا کھانے سے منہ کے کینسر میں تیزی سے اضافہ ہورہا ہے اور روزانہ کی بنیاد پر شہر کے مختلف علاقوں سے منہ کے کینسر کے مریض آرہے ہیں ، ان کا کہنا تھا کہ گٹکا ماوا کھانے والے افراد کا پہلا منہ زیادہ نہیں کھلتا ہے اور منہ میں چھالے ہوجاتے ہیں اور ایک سے دو ہفتے میں اگر ان چھالوں کا علاج نہیں ہو تو وہ چھالے کینسر میں تبدیل ہوجاتے ہیں ، ان کا کہنا تھا کہ ماوا اور گٹکا میں مضر صحت کیمیکل شامل ہوتے ہیں اور وہی کیمیکل منہ کے کینسر کا سبب بنتے ہیں۔

کراچی(اسٹاف رپورٹر)گٹگا ماوے کے خلاف کریک ڈاﺅن کے اعلان کے بعد کراچی کے تاجروں نے بھارت سے اسمگل ہوکر آنے والے انتہائی مضر صحت گٹگا اور ماوا کا بھاری اسٹوک اپنے گوداموں میں جمع کرنا شروع کردیا ہے ، تاکہ شہر میں بننے والے گٹگا ماوا کی بندش کے بعد بھارت سے اسمگل ہوکر آنے والے گٹگا ماوا کی فروخت میں اضافہ ہوجائےگا ، زیادہ تر کراچی میں رہائش پذیر افراد بھارت سے اسمگل ہوکر آنے والے مضر صحت گٹگا ، ماوا کو خرید کر کھاتے ہےں ، اور دکاندار اسمگل گٹکے کی تعریف کرتے ہےں کہ یہ ایمپورٹ گٹگا ہے اور اس میں کسی قسم کی کوئی ملاوٹ نہیں ہے ،اسمگل ہوکر آنے والے بھارتی گٹکے کو پابندی کے دنوں میں بھاری قیمت پر فروخت کیا جاتا ہے ، شہرمیں بھارت سے ایمپورٹ کئے گئے گٹکے بھی کھلے عام پولیس کی سرپرستی میں فروخت کئے جارہے ہےں امت کے سروے کے دوران شہر میں بھارت سے امپورٹڈ گٹکے کی وسیع رینج بھی دیکھنے میں آئی ان امپورٹڈ گٹکوں میں رتن ، سٹی ، جے ایم ، راج گرو، مائی ٹیچر، فٹ گٹا ، راجابا بو، سوسائٹی، پان پراگ، 2100 گٹکا ، آر ایم ڈی شامل ہےں ان کی ہول سیل ڈبے کی قیمت 1500 روپے سے شروع ہوتی ہے جبکہ سب سے مہنگا گٹکاآر ایم ڈی ہے جس کی ہول سیل ڈبے کی قیمت 2000 روپے ہے جبکہ پان کی دکان والے اور گھروں میں محدود پیمانے پر گٹکا تیار کر کے علاقے کی سطح پر فروخت کرنے والے بھی لگ بھگ اسی مقدار میں گٹکے کی پڑیاں تیار کے کے فروخت کررہے ہےں مقامی گٹکے ایک تھیلی میں 150 سے 180تک پڑیاں ہوتی ہےں جو کہ فی تھیلی 1500 روپے سے لے کر 2000 روپے تک دکاندار کو دی جاتی ہے جیسے دکاندار فی پڑیاں پر 5 سے 10 روپے اوپر رکھ کر فروخت کرتا ہے۔

About BLI News 3241 Articles
Multilingual news provider for print & Electronic Media. Interviews, Exclusive Stories, Analysis, Features, Press Conferences Photo & Video Coverage and Economic Reviews, Pakistan and Worldwide. Opinions, Documentaries & broadcast.