کراچی کے شہریوں کو 15سال سے پبلک ٹرانسپورٹ کی شدید کمی کا سامنا ہے شہری خستہ حال بسوں کی چھتوں پر بیٹھ کر اور دروازوں پر لٹک کر سفر کرتے ہیں۔
وفاقی اور سندھ حکومت ملک کے معاشی حب اور70 فیصد ریونیو دینے والے میگا پولیٹن سٹی کے تباہ حال ٹرانسپورٹ نظام کو بہتر کرنے اور نئی بسیں متعارف کرانے میں مکمل ناکام ہے گزشتہ تین عشروں سے شہر میں امن وامان کی بری صورتحال، ہڑتالیں، پبلک ٹرانسپورٹ کو جلانے، سی این جی بحران، پولیس کی جانب سے پبلک ٹرانسپورٹ کو بیگار پر استعمال کرنا ، غیرقانونی چنگ چی رکشوںکے باعث بسوں ، منی بسوں اور کوچز کی تعداد میں بتدریج کمی آتی گئی۔
صوبائی محکمہ ٹرانسپورٹ کے دعوے کے مطابق شہر میں اس وقت چھ ہزار 176بسیں ، منی بسیں اور کوچز صرف 165 روٹ پر چل رہی ہیں جن میں بڑی بسوں کی تعداد 653، منی بسیں 2ہزار 926، کوچز 2ہزار 391، کراچی پبلک ٹرانسپورٹ سوسائٹی کے زیر انتظام 160 بسیں ، اربن ٹرانسپورٹ اسکیم کی 10بسیں اور کے ایم سی کے تحت36 سی این جی بسیں چل رہی ہیں۔
تازہ سروے کے مطابق صوبائی حکومت کا ریکارڈ درست نہیں ہے شہر میں اس وقت ساڑھے 4 ہزار بسیں ، منی بسیں اور کوچز چل رہی ہیں، کئی ٹرانسپورٹرز نے روٹ پرمٹ ضرور حاصل کررکھے ہیں تاہم ان کی گاڑیاں خراب کھڑی ہیں،کاروبار میں گھاٹے یا دیگر وجوہ پر گاڑیاں شہر سے باہر چلائی جارہی ہیں یا لوڈنگ ٹرک وکنٹریکٹ کیئریر بسوں میں تبدیل کی جاچکی ہیں۔
ٹرانسپورٹر روٹ پرمٹ اس لیے حاصل کرتے ہیں تاکہ روٹس پر اجارہ داری قائم رہے اور واپس اپنی گاڑیاں لانے کا موقع رہے اس ضمن میں صوبائی حکومت نے کبھی کوئی سروے نہیں کیا ہے صرف رجسٹریشن اور روٹ پرمٹ کی بنیاد پر ڈیٹا اکٹھا کیا جاتا ہے ایکسپریس سروے میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ شہر میں ٹرانسپورٹ کا نظام تباہی کے دھانے پر کھڑا ہے، دنیا کے تمام بڑے شہروں میں معیاری بڑی بسیں اور ماس ٹرانزٹ سسٹم موجود ہے۔
ریجنل ٹرانسپورٹ اتھارٹی میں موجود ریکارڈ کے مطابق شہر میں بسوں کے 60 روٹس تھے، گزشتہ 15سال کے دوران 30 روٹ بند ہوگئے اب صرف30 روٹ پر بسیں چل رہی ہیں منی بسوں کے 236 روٹ تھے جن میں137بند ہوگئے اور صرف87 چل رہے ہیں،کوچز کے75روٹ تھے جن میں 35 بند ہوگئے اور 40 آپریشنل ہیں کراچی پبلک ٹرانسپورٹ سوسائٹی کے53 روٹ میں7 آپریشنل ہیں اربن ٹرانسپورٹ اسکیم کے22 روٹس میں صرف ایک روٹ آپریشنل ہے مجموعی طور پر عوامی ٹرانسپورٹ کے 446 روٹ ہیں جن میں 269 روٹ بند ہوچکے ہیں اور اس وقت صرف 165روٹس آپریشنل ہیں بند ہونے والے معروف روٹس میں روٹ نمبر8،8A ، 8D،1C،5، 5D، 5E، 11A، 1F، 72 ، 72 A، 5A، 5B، 4M، 4H، 6B، اور دیگر روٹس شامل ہیں شامل ہیں۔
منی بسوں کے بند ہونے والے روٹس A، A1، A2، B1، D2، ٖF3، F4، G، G1، K، K1، M، M3، N2، N3، P2، P6، S، S1، U2، U3 شامل ہیں کوچز میں محفوظ کوچ، عمرکوچ ، نیشنل پختون کوچ، نیو غازی کوچ اور دیگر کوچز کے روٹ بند ہوچکے ہیں ٹرانسپورٹرز کے مطابق کراچی میں ٹرانسپورٹ کا کاروبار کرنا ہمت کا کام ہے، ماضی میں ہونے والی ہڑتالیں جن میں پبلک ٹرانسپورٹ کو نذرآتش کرنا عام بات تھی تاہم ٹرانسپورٹرز کسی نہ کسی طریقے سے اپنا کاروبار چلاتے رہے تاہم 2006 میں موٹرسائیکل چنگچی اور 9، 12سیٹوں والے سی این جی رکشہ سروس نے ٹرانسپورٹرز کی کمر توڑ دی اس دوران کئی بڑی بسیں اسکریپ ہوگئیں اور منی بسیں لوڈنگ ٹرک یا کیریئر بسوں میں تبدیل کردی گئیں۔
2012 میں چنگچی رکشہ سروس کی وجہ سے پبلک ٹرانسپورٹ کی تعداد صرف 4 ہزار رہ گئی تھی، ہائی کورٹ کی جانب سے اس غیرقانونی سروس پر 2015 میں پابندی عائد کردی گئی جس کے بعد پبلک ٹرانسپورٹ کو قدرے سنبھالا ملا، کچھ بند روٹ دوبارہ کھل گئے جن میں گاڑیاں بھی واپس آگئیں تاہم عمومی صورتحال ابھی بھی دگرگوں ہے۔
کراچی ماس ٹرانزٹ سیل کی مختلف اسٹیڈیز کے مطابق کراچی میں روزانہ 70 لاکھ مسافر پبلک ٹرانسپورٹ کو استعمال کرتے ہیں تاہم بسوں کی شدید کمی کے باعث انھیں چھتوں پر بیٹھ کر سفر کرنا پڑتا ہے۔