حکومت تمام تر اقدامات کے باوجود مہنگائی کو کنٹرول کرنے میں ناکام رہی
اسلام آباد( بی ایل آٸی)دو ہزار انیس عوام کیلئے بھاری رہاجس میں مہنگائی عروج پر رہی۔ بجلی اورگیس کی قیمتوں میں اضافے کے بعد حکومت تمام تردعوؤں اور اقدامات کے باجود مہنگائی کے جن کوقابو کرنے میں بری طرح ناکام رہی۔ آئی ایم ایف نے بھی غذائی اشیا کی قیمتوں میں اضافے پر تشویش کااظہارکیا۔
تبدیلی سرکارکی جانب سے گیس اور بجلی ٹیرف میں اضافے اور ڈالرکے مقابلے میں روپے کی قدر میں کمی کے اثرات دوہزارانیس میں عوام نے بری طرح سے بھگتے۔پیداواری لاگت اور ٹرانسپورٹ کرایوں میں اضافے سے ملک میں پیدا ہونےوالی تمام اشیا کی قیمتوں میں نمایاں اضافہ ہوا۔ حکومت کی معاشی ترجیحات میں کنفوژن اورمعاشی ٹیم میں تبدیلیوں سے معاشی سست روی ہوئی اورعوام کی مشکلات مزید بڑھیں۔ مہنگائی بڑھتے ہوئےنومبرمیں نوسال کی بلندترین سطح بارہ اعشاریہ سات فیصدپرپہنچ گئی۔
وفاقی ادارہ شماریات کے مطابق ایک سال میں گیس کی قیمت میں پچپن فیصد، بجلی ٹیرف میں ساڑھے اٹھارہ فیصد، موٹرایندھن کی قیمتوں میں سولہ فیصداضافہ ہوا، صحت کی سہولیات میں گیارہ فیصد، دالوں کی قیمت میں چون فیصد، آلوبیالیس فیصد، تازہ سبزیوں میں چالیس فیصد، چینی تینتیس فیصد، آٹا سولہ فیصد، مصالحہ جات انیس فیصد،خوردنی تیل سولہ فیصد مہنگا ہوا۔
وزیراعظم نے مہنگائی میں اضافہ پرایکشن کیلئے متعددبارہدایات جاری کیں لیکن ان پر عمل درآمد نہ ہوا۔اکتوبرمیں وزیراعظم نے یوٹیلیٹی اسٹورز پرعوام کواشیائے ضروریہ پرچھ ارب روپےکی سبسڈی دینے کی منظوری دی تاہم دسمبرکےاختتام تک وزارت صنعت وپیداوار اور وزارت خزانہ سبسڈی کے شفاف طریقہ کار پراتفاق نہ کرسکیں۔
آئی ایم ایف کوبھی کہناپڑاکہ قرض پروگرام کےتحت افراط زرمیں توکمی ہورہی ہے لیکن اہم غذائی اشیا کی قیمتوں میں اضافہ باعث تشویش ہے۔ حکومت کا دعویٰ ہےکہ آئندہ سال جنوری سے مہنگائی کی شرح میں کمی واقع ہونا شروع ہو جائے گی تاہم ماہرین کے مطابق زرعی اور صنعتی پیداواری لاگت کم کیے بغیرایساکرنا مشکل ہوگا۔