جب میں مدرسے سے واپس آیا تو حکیم صاحب کو دادا کے کمرے سے نکلتے ہوئے دیکھا ۔ دیکھیں برخوردار ! میاں صاحب کو چینی اور میٹھے سے پرہیز کرانا ہوگا۔ حکیم صاحب نے والد صاحب سے کہا ۔
شاہین طارق:
جب میں مدرسے سے واپس آیا تو حکیم صاحب کو دادا کے کمرے سے نکلتے ہوئے دیکھا ۔
دیکھیں برخوردار ! میاں صاحب کو چینی اور میٹھے سے پرہیز کرانا ہوگا۔ حکیم صاحب نے والد صاحب سے کہا ۔
والد صاحب نے حکیم صاحب کو دروازے تک رخصت کیا ، میں بہت حیرت سے ان کے درمیان ہونے والی گفتگو سن رہا تھا اور ان کو دیکھ رہا تھا۔حکیم صاحب کے جاتے ہی میں نے ابا سے پوچھا : حکیم صاحب کیوں آئے تھے ۔
تمھارے دادا کی طبیعت خراب ہے ۔ انھوں نے بتایااور جلدی سے دادا کے کمرے میں چلے گئے ، میں بھی ان کے پیچھے دادا کے کمرے میں چلاگیا ۔ دادا جان بستر پر مزے سے لیٹے ہوئے گوکھارہے تھے۔ والد کو آتا دیکھ کرگڑتکیے کے نیچے چھپادیا ، مگر میں نے اور والد صاحب نے دیکھ لیا ۔
دیکھیں اباجی ! اب آپ کومیٹھا نہیں کھاناچاہیے ، حکیم صاحب نے سختی سے منع کیا ہے ۔ والد نے دادا کے تکیے کے نیچے سے گڑ کی بڑی سی ڈلی نکال کر مجھے دی اور دادا سے درخواست کی کہ وہ میٹھا نہ کھائیں ۔
جاؤ یہ اپنی ماں کو دے دو۔ ابا نے مجھ سے کہا اور میں نے دیکھا کہ دادا کی نظریں بدستور میرے ہاتھ میں موجود گڑ کی ڈلی پر جمی ہوئی تھیں ۔ میرے جانے سے پہلے ہی ابا کمرے سے چلے گئے ۔ اس سے پہلے کہ میں کمرے سے نکلتا ، دادا نے مجھے آواز دی : ارے میاں ! یہ میری چیز ہے واپس دو۔
نہیں دادا ! حکیم صاحب نے منع کیا ہے ، آپ کی طبیعت خراب ہے ۔ میں یہ ماں کو دے دو گا۔ وہ کوئی میٹھی چیز ہمارے لیے بنادیں گی ۔
دیتے ہویا ․․․․․ دادا غصے میں ہلکی آواز میں کہا ۔
نہیں ۔ میں بھی ڈھیٹ بن گیا ۔
ارے میاں ! تم یہ ایک رپے کاسکہ لواور میری چیز مجھے دے دو ۔
ٹھیک ہے سودا منظور ہے ۔ میں راضی ہوگیااور میں نے دادا کوگڑ کی ڈلی دی اور دادا نے مجھے ایک رپے کا سکہ دے دیا۔ ابھی ہمارا سودا تکمیل کے مراحل میں تھا کہ والد صاحب دوبارہ کمرے میںآ ئے اور دوائیں میز پر رکھ چلے گئے ، مگر پکڑے جانے کے خوف سے دادا نے گڑفوراََ تکیے کے نیچے رکھ دیا اور ہم رقم والا ہاتھ کمر کے پیچھے رکھ کر کھڑے ہوگئے ۔ اچانک سکہ ہاتھ سے چھوٹ کر نیچے گر گیااور لڑھک کردادا کے بستر کے نیچے چلا گیا ۔ والد صاحب کے چلے جانے کا اطمینان کرکے ہم جھک کر سکہ تلاش کیا، مگر نہ ملا کیوں کہ دادا کے بستر کے نیچے ہی ان کے بچپن سے جوانی تک کا نہ جانے کیا کیا سامان محفوظ تھا ۔ کچھ سامان گتے کے ڈبوں میں تھا ۔
کیا ہوا ؟ دادا نے پوچھا ۔
میں نے جھکے جھکے ہی جواب دیا: یہاں اندھیرابہت ہے ،سکہ نظرنہیں آرہا ہے ۔
کوئی لکڑی لاؤاور ٹارچ جلا کردیکھو ، سکہ مل جائے گا۔ دادا نے کہا ۔
میں چپکے سے ایک لکڑی تلاش کرکے لایا، دادا کے کمرے میں ٹارچ رکھی تھی ، اس کی مدد سے بستر کے نیچے پیٹ کے بل گھس گیا کہ باہر صرف چلیں نظرآرہی تھیں ۔
جلدی تلاش کرو ، ورنہ کوئی آجائے گا۔ دادا نے خدشہ ظاہر کیا۔
دیکھ تو رہا ہوں مل ہی نہیں رہا۔ میں اپنے کپڑے خراب ہونے کی پروا کیے بغیر تلاشی لے رہا تھا کہ کسی کے آنے کی آہٹ ہوئی اور دادا نے جلدی سے میری نظر آنے والی چپلوں پر اپنا لحاف گرادیا۔
ابا جی ! آپ نے منصور کو کہیں باہر بھیجا ہے ؟ امی نے ہمارے متعلق پوچھا ۔
نہیں تو، شاید کسی دوست کے ساتھ باہر ہی ہو۔ دادا نے صاف جھوٹ بولا ۔
امی چلی گئیں ۔ امی کے جاتے ہی دادا نے غصے سے کہا : منصور میاں ! چھوڑو بھی سکہ ، باہر آؤ۔ دادا کے کہنے پر میں نہ چاہتے ہوئے بھی باہر آگیا ۔ کپڑے جھاڑے اور آنکھ بچا کر گھر سے باہر چلا گیا اور تھوڑی دیر بعد واپس آگیا ۔
منصور ! کہاں تھے تم ؟ امی نے پوچھا ۔
میں زاہد کے ساتھ باہر گیا تھا ۔ میں نے بھی دادا کی طرح جھوٹ بولا ۔
اور یہ تمھارے کپڑے کیوں گندے ہورہے ہیں ؟ امی نے پوچھا ۔
امی کے کہنے پر ہم نے اپنے کپڑے دیکھے جو دادا کے بستر کے نیچے گھسنے کی وجہ سے گندے ہوگئے تھے ۔
میں گرگیا تھا۔ میں نے پھر جھوٹ بولا ۔
امی نے میرے لیے صاف کپڑے نکالے مجھے نہلایا اور کپڑے تبدیل کروادیے ۔ میں وقتاََ وقتاََ دادا کے بستر کے نیچے اپنا سکہ تلاش کرتا رہتا ، مگر نہ جانے وہ کہاں چلا گیا تھا ۔
میں مدرسے سے اسکول اور اسکول سے کالج چلاگیا ، مگر وہ سکہ نہیں بھولا۔ پھرایک دن دادا کاانتقال ہوگیا اور ان کے انتقال کے بعد والد صاحب نے وہ کمرا مجھے دے دیا ، تاکہ میں پڑھائی پر پوری توجہ دے سکوں ۔ کمرے کی صفائی ہوئی ، بستر کی جگہ تبدیل کرنے کی غرض سے بستر ہٹایا گیا، بستر کے نیچے کی تمام چیزیں بھی ہٹالی گئیں ۔ اسی صفائی کے دوران 14 سال پہلے گم ہوجانے والا پرانہ سکہ بھی مل گیا ۔ سکے کے ملتے ہی 14سال پہلے والا منصور بن کرخوش ہوا اور سکہ جیب میں رکھ کر خوشی سے اُچھلنے لگا۔ یہ دیکھ کر والد صاحب بہت حیران ہوئے ۔ ان کے پوچھنے پر میں نے سکہ گم ہونے کاقصہ سنایا۔ والد صاحب مسکرانے لگے ، والدہ بھی ہنس پڑیں اور میری نظروں میں دادا کامسکراتا ہوا چہرہ لہراگیا ۔
جب میں مدرسے سے واپس آیا تو حکیم صاحب کو دادا کے کمرے سے نکلتے ہوئے دیکھا ۔
دیکھیں برخوردار ! میاں صاحب کو چینی اور میٹھے سے پرہیز کرانا ہوگا۔ حکیم صاحب نے والد صاحب سے کہا ۔
والد صاحب نے حکیم صاحب کو دروازے تک رخصت کیا ، میں بہت حیرت سے ان کے درمیان ہونے والی گفتگو سن رہا تھا اور ان کو دیکھ رہا تھا۔حکیم صاحب کے جاتے ہی میں نے ابا سے پوچھا : حکیم صاحب کیوں آئے تھے ۔
تمھارے دادا کی طبیعت خراب ہے ۔ انھوں نے بتایااور جلدی سے دادا کے کمرے میں چلے گئے ، میں بھی ان کے پیچھے دادا کے کمرے میں چلاگیا ۔ دادا جان بستر پر مزے سے لیٹے ہوئے گوکھارہے تھے۔ والد کو آتا دیکھ کرگڑتکیے کے نیچے چھپادیا ، مگر میں نے اور والد صاحب نے دیکھ لیا ۔
دیکھیں اباجی ! اب آپ کومیٹھا نہیں کھاناچاہیے ، حکیم صاحب نے سختی سے منع کیا ہے ۔ والد نے دادا کے تکیے کے نیچے سے گڑ کی بڑی سی ڈلی نکال کر مجھے دی اور دادا سے درخواست کی کہ وہ میٹھا نہ کھائیں ۔
جاؤ یہ اپنی ماں کو دے دو۔ ابا نے مجھ سے کہا اور میں نے دیکھا کہ دادا کی نظریں بدستور میرے ہاتھ میں موجود گڑ کی ڈلی پر جمی ہوئی تھیں ۔ میرے جانے سے پہلے ہی ابا کمرے سے چلے گئے ۔ اس سے پہلے کہ میں کمرے سے نکلتا ، دادا نے مجھے آواز دی : ارے میاں ! یہ میری چیز ہے واپس دو۔
نہیں دادا ! حکیم صاحب نے منع کیا ہے ، آپ کی طبیعت خراب ہے ۔ میں یہ ماں کو دے دو گا۔ وہ کوئی میٹھی چیز ہمارے لیے بنادیں گی ۔
دیتے ہویا ․․․․․ دادا غصے میں ہلکی آواز میں کہا ۔
نہیں ۔ میں بھی ڈھیٹ بن گیا ۔
ارے میاں ! تم یہ ایک رپے کاسکہ لواور میری چیز مجھے دے دو ۔
ٹھیک ہے سودا منظور ہے ۔ میں راضی ہوگیااور میں نے دادا کوگڑ کی ڈلی دی اور دادا نے مجھے ایک رپے کا سکہ دے دیا۔ ابھی ہمارا سودا تکمیل کے مراحل میں تھا کہ والد صاحب دوبارہ کمرے میںآ ئے اور دوائیں میز پر رکھ چلے گئے ، مگر پکڑے جانے کے خوف سے دادا نے گڑفوراََ تکیے کے نیچے رکھ دیا اور ہم رقم والا ہاتھ کمر کے پیچھے رکھ کر کھڑے ہوگئے ۔ اچانک سکہ ہاتھ سے چھوٹ کر نیچے گر گیااور لڑھک کردادا کے بستر کے نیچے چلا گیا ۔ والد صاحب کے چلے جانے کا اطمینان کرکے ہم جھک کر سکہ تلاش کیا، مگر نہ ملا کیوں کہ دادا کے بستر کے نیچے ہی ان کے بچپن سے جوانی تک کا نہ جانے کیا کیا سامان محفوظ تھا ۔ کچھ سامان گتے کے ڈبوں میں تھا ۔
کیا ہوا ؟ دادا نے پوچھا ۔
میں نے جھکے جھکے ہی جواب دیا: یہاں اندھیرابہت ہے ،سکہ نظرنہیں آرہا ہے ۔
کوئی لکڑی لاؤاور ٹارچ جلا کردیکھو ، سکہ مل جائے گا۔ دادا نے کہا ۔
میں چپکے سے ایک لکڑی تلاش کرکے لایا، دادا کے کمرے میں ٹارچ رکھی تھی ، اس کی مدد سے بستر کے نیچے پیٹ کے بل گھس گیا کہ باہر صرف چلیں نظرآرہی تھیں ۔
جلدی تلاش کرو ، ورنہ کوئی آجائے گا۔ دادا نے خدشہ ظاہر کیا۔
دیکھ تو رہا ہوں مل ہی نہیں رہا۔ میں اپنے کپڑے خراب ہونے کی پروا کیے بغیر تلاشی لے رہا تھا کہ کسی کے آنے کی آہٹ ہوئی اور دادا نے جلدی سے میری نظر آنے والی چپلوں پر اپنا لحاف گرادیا۔
ابا جی ! آپ نے منصور کو کہیں باہر بھیجا ہے ؟ امی نے ہمارے متعلق پوچھا ۔
نہیں تو، شاید کسی دوست کے ساتھ باہر ہی ہو۔ دادا نے صاف جھوٹ بولا ۔
امی چلی گئیں ۔ امی کے جاتے ہی دادا نے غصے سے کہا : منصور میاں ! چھوڑو بھی سکہ ، باہر آؤ۔ دادا کے کہنے پر میں نہ چاہتے ہوئے بھی باہر آگیا ۔ کپڑے جھاڑے اور آنکھ بچا کر گھر سے باہر چلا گیا اور تھوڑی دیر بعد واپس آگیا ۔
منصور ! کہاں تھے تم ؟ امی نے پوچھا ۔
میں زاہد کے ساتھ باہر گیا تھا ۔ میں نے بھی دادا کی طرح جھوٹ بولا ۔
اور یہ تمھارے کپڑے کیوں گندے ہورہے ہیں ؟ امی نے پوچھا ۔
امی کے کہنے پر ہم نے اپنے کپڑے دیکھے جو دادا کے بستر کے نیچے گھسنے کی وجہ سے گندے ہوگئے تھے ۔
میں گرگیا تھا۔ میں نے پھر جھوٹ بولا ۔
امی نے میرے لیے صاف کپڑے نکالے مجھے نہلایا اور کپڑے تبدیل کروادیے ۔ میں وقتاََ وقتاََ دادا کے بستر کے نیچے اپنا سکہ تلاش کرتا رہتا ، مگر نہ جانے وہ کہاں چلا گیا تھا ۔
میں مدرسے سے اسکول اور اسکول سے کالج چلاگیا ، مگر وہ سکہ نہیں بھولا۔ پھرایک دن دادا کاانتقال ہوگیا اور ان کے انتقال کے بعد والد صاحب نے وہ کمرا مجھے دے دیا ، تاکہ میں پڑھائی پر پوری توجہ دے سکوں ۔ کمرے کی صفائی ہوئی ، بستر کی جگہ تبدیل کرنے کی غرض سے بستر ہٹایا گیا، بستر کے نیچے کی تمام چیزیں بھی ہٹالی گئیں ۔ اسی صفائی کے دوران 14 سال پہلے گم ہوجانے والا پرانہ سکہ بھی مل گیا ۔ سکے کے ملتے ہی 14سال پہلے والا منصور بن کرخوش ہوا اور سکہ جیب میں رکھ کر خوشی سے اُچھلنے لگا۔ یہ دیکھ کر والد صاحب بہت حیران ہوئے ۔ ان کے پوچھنے پر میں نے سکہ گم ہونے کاقصہ سنایا۔ والد صاحب مسکرانے لگے ، والدہ بھی ہنس پڑیں اور میری نظروں میں دادا کامسکراتا ہوا چہرہ لہراگیا ۔