یہ کوئی زیادہ پرانی بات نہیں ہے کہ ایک ہی گیجٹ میں سمانے والا نفیس کمپیوٹر، کیمرہ اور فون صرف سائنس فکشن فلم کا حصہ ہوا کرتاتھا، اب یہ اسمارٹ فون ہر جگہ موجود ہیں اور ہر گزرتے دن کے ساتھ ان کی نفاست میں اضافہ ہوتا جارہا ہے۔ ذرا اس وقت کا تصور کیجیے جب کلاؤڈ کمپیوٹنگ کے ذریعے مصنوعی ذہانت پر مبنی اسمارٹ فون آپ کے طبی علاج و معالجے کو گھر بیٹھے آسان بنادے گا۔ موبائل ایپ آپ کی بیماری کی تشخیص اور ادویات تجویز کرے گی جبکہ آپ کی مقامی فارمیسی ادویہ کا تھری ڈی پرنٹ پیش کرے گی۔ یہ اب کوئی فینٹسی اور خواب وخیال کی باتیں نہیں رہیں، ٹیلی میڈیسن اور ہیلتھ ٹیک کے میدان میں کئی پیش رفت ہوچکی ہیں۔ اس وقت بھی اگر واٹس ایپ کی بات کی جائے تو ہمارے اسپتالوں میںجونیئر ڈاکٹرز اپنے سینئر ڈاکٹرز کو مریضوں کی بیماری اور زخم کی نوعیت کی تصاویر بھیج کر فوری مطلع کرکے بروقت علاج کو ممکن بناتے ہیں۔
سائنس اور ٹیکنالوجی کے میدان میں پُرجوش پیش رفت چوتھے صنعتی انقلاب کا حصہ ہے۔ جہاں دنیا بھر میں ہرہفتے کوئی نہ کوئی نئی ٹیکنالوجی متعارف ہوکر حیرت کے سامان پیدا کررہی ہے۔ تاہم بہت سے لوگوں کے لیےاسمارٹ مشینوں کا دور تشوش ناک بھی ہے، جیساکہ سائنس فکشن مووی ٹرمینیٹر میں مصنوعی ذہانت سے چلنے والا شیطان صفت اسکائی نیٹ تھا جو دنیا کو کنٹرول کرنے اور انسان کی تباہی کے درپے رہا۔ لیکن جاپان اور ورلڈ اکنامک فورم اس بات پر پختہ یقین رکھتے ہیں کہ حقیقت میں ایسا نہیں ہوگا۔ وہ اس بات پر زور دیتے ہیں کہ ہم ایک ایسا انقلاب لانا چاہتے ہیں جہاںدیکھ بھال،ہائی ٹیک اور انسانوں پر مرتکزمعاشرے میں لوگ ٹیکنالوجی کی مداخلت کے خوف سے بالاتر ہوکر صحت مند اور کارآمد زندگی گزاریں۔
اس وقت ہم چوتھے صنعتی انقلاب کے ابتدائی مراحل میں ہیں۔ ڈیجیٹل، فزیکل اوربائیولوجیکل سسٹمز کے مابین اشتراک و تعاون اور ادغام ابھر رہا ہے، جو ہمارے طرزِ حیات کو بلند کررہا ہے۔پہلا صنعتی انقلاب اسٹیم انجن کی ایجاد سے ابھرا جبکہ دوسرے اور تیسرے صنعتی انقلاب نے بجلی کو دیکھا جس سے پیداواری صلاحیت میں اضافہ ہوا۔ کمپیوٹروں اور کمیونیکیشن ٹیکنالوجیز نے ڈیجیٹل دور کی راہیں ہموارکیں۔ اب چوتھے صنعتی انقلاب کے اہم محرکات مصنوعی ذہانت، بگ ڈیٹا اور انٹرنیٹ آف ایوری تھنگ ہیں۔ یہ ایسی طاقتور ٹیکنالوجیز ہیں کہ اگر ہمارے کنٹرول سے باہر ہوگئیں تو ہماری بربادی کا سامان پیدا کرسکتی ہیں۔ یہی خدشات ہمارے خوف کا باعث ہیں، جس کے لیے ہمیں متحرک اور ذمہ دارانہ کردار ادا کرنا ہوگا تاکہ ہم اپنی زندگیوں کو زیادہ آسان بنانے کے لیے سہولت کار دوست روبوٹس بنا سکیں۔
جاپان کی اختراعی صلاحیتیں
ایک طرف دنیا مصنوعی ذہانت کے خوف میں مبتلا ہے تو دوسری جانب ورلڈ اکنامک فورم کے بانی اورایگزیکٹو چیئرمین کلاس شواب کہتے ہیں کہ چوتھے صنعتی انقلاب کی تشکیل اور وضع سازی میں جاپان قائدانہ کردار ادا کرتے ہوئے ورلڈ اکنامک فورم کے نئے تحقیقی مرکز (جو چوتھے انقلاب کے خد و خال واضح کرنے کے لیے قائم کیا گیا) کے ساتھ مل کر عالمی اختراع سازی پر کام کرے گا۔ فوربز جاپان کو دئیے گئے حالیہ انٹرویو میں انہوں نے کہا کہ جاپان کی اختراعی صلاحیتوں کو عالمی پیمانے پر ابھی تک تسلیم نہیں کیا گیا۔دنیا سیلیکون ویلی اور شین ژین پر بات چیت کر رہی ہے کہ وہاں کیا ہورہاہےلیکن وہ یہ نہیں جانتی کہ جاپان نے ایک کامیاب اسٹارٹ اَپ کمیونٹی قائم کردی ہے ۔ دنیا کی بڑی کمپنیاں بار باراپنی اختراعی طاقت پر توجہ دے رہی ہیں، جس کے بغیر وہ عالمی مارکیٹ میں اپنی اہمیت، وقعت اور وجود برقرار نہیں رکھ پائیں گی۔
شواب نے چوتھے صنعتی انقلاب کے لیے جاپان میں ورلڈ اکنامک فورم کے تحقیقی مرکز کادورہ کیا جو آجکل اس نئی ٹیکنالوجی کا حب بن چکا ہے۔ اسے جاپانی کارپوریشنوں اور حکومت کے تعاون و اشتراک سے بنایا گیا ہے۔اس مرکز کے قیام کا اعلان جنوری میں ڈیووس میں ورلڈ اکنامک فورم کے سالانہ اجلاس میں کیا گیاتھا۔قبل ازیں مارچ 2017ء میں سان فرانسسکو میں ’’مرکز برائے چوتھا صنعتی انقلاب‘‘کا قیام عمل میں آیا۔ ورلڈ اکنامک فورم کا ارادہ ہے کہ چوتھے صنعتی انقلاب کےچیلنجز کا سامنا کرنےاور اسے ذمہ دارانہ انداز سے ممکن بنانے کے لیے ایسے تحقیقی مراکز دنیا بھر میں قائم کرے گا۔
شواب کا ماننا ہے کہ جاپان کئی اسباب کی بنا پر اس تبدیلی میں منفرد کردار ادا کرسکتا ہے۔ایک تو جاپان کی تجربہ کار آبادی کے باعث جاپان کو ان تبدیلیوں کا سامنا نہیں جو بیشتر ترقی یافتہ ممالک کو متاثر کررہے ہیں۔ دوسرےوزیر اعظم شنزو ایبے اور اس کی حکومت کا طویل مدتی وژن ہے،جن کے سرکاری و نجی شعبوں کے ساتھ دیرینہ تعلقات ہیں ۔تیسرے بے روزگاری کی کم شرح نے ملک کو اس پوزیشن پر رکھا ہے کہ وہ چوتھے انقلاب کی تبدیلی سے ہم کنار ہوسکیں۔ ان ٹیکنالوجیز کوتشکیل دینے کے لیے ہم عالمی تعاون سے کام کریںگے کیونکہ یہ ٹیکنالوجیز انسان کے لیے بہت مفید ہیں۔ اس ضمن میں ہم ایسے ضوابط مرتب کریں گے جن سےعالمی ترقیاتی اہداف کا حصول ممکن ہو اور یہ ٹیکنالوجیز معاشرے کی بہتری میں یقینی کردار ادا کریں۔ اس تحقیق مرکز کے سربراہ مورت سون میز بھی تائید کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ہم اس مرکز کو’ہیومن سینٹرک ڈیزائن تھنکنگ‘ پر مرتب کرتے ہوئے اسے شہریوں کو بہتر سہولتیں دینے کے لیے اختراعات کا مرکز بنائیں گے اور کسی بھی ایسی ایجاد کی حوصلہ شکنی کی جائے گی جو انسانی ذہانت میں مخل ہوسکے یا جن کی موجودگی انسانوں کو بیروزگار کردے۔ علاج و معالجے کی سہولتیں بہتر بنانے کے حوالے سے مصنوعی ذہانت کا استعمال افریقہ میں روانڈا جیسے ممالک کے لیے بہت سود مندثابت ہوگا جہاں معالجین اور ادویات کی قلت کے باعث ہلاکتوں کی شرح زیادہ ہے۔ اس طرح ترقی یافتہ ٹیکنالوجی سے ہم زیادہ بہتر ادویات کی تیاری اور رفتار کو بہتر بنا سکتے ہیں۔
ورلڈ اکنامک فورم اور جاپان کے مابین سودمندروابط کو یقینی بنانے اور انہیں استوار کرنے کے لیے تجربہ کار میکیو ایدا کوادارے کے جاپان آفس کی چیف ری پریزنٹیو آفیسر کے عہدے پر تعینات کیا گیا ہے۔ان کا کہنا ہے کہ سپر اسمارٹ سوسائٹی کے قیام میں یہ سینٹر مرکزی کردار ادا کرے گا۔ اس وقت ٹوکیو مصنوعی ذہانت پر کام کرنے والے روبوٹس کی تیاری کا مرکز بن چکا ہے،چوتھا صنعتی انقلاب دنیا کو زیادہ محفوظ اور پُر امن بنائے گا۔
واضح رہے کہ جاپان وہ ملک ہے جسے امریکا نے ہیروشیما اور ناگاساکی پر بمباری کر کے تباہ و برباد کر دیا تھا اور کوئی سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ خوفناک تباہی اور کھنڈر سے نکل کر یہ قوم صنعتی انقلاب میں دنیا پرچھاجائے گی۔ جاپان نے آٹو انڈسٹری کو عروج دیا اور اب مصنوعی ذہانت کے چوتھے صنعتی انقلاب کا شناور بھی یہی ملک ہے، جس نے کسی بھی حالت میں شکست نہیں کھائی۔ آج روبوٹک انقلاب جس تیزی سے جاپان میں پروان چڑھ رہا ہے اس سے شنید ہے کہ آنے والے وقتوں میں سوچنے والے روبوٹ، خانساما ں روبوٹ ، سرجن روبوٹ ، لیبر روبوٹ ، صحافی روبوٹ، خاکروب روبوٹ، دانشور روبوٹ ، اینکر روبوٹ، کنسٹرکشن روبوٹ اور ڈرائیور روبوٹ کی صورت میں چلتے پھرتے مشینی انسان آپ کو جاپان سے ہی ملیں گے ۔