جامعات میں جنسی ہراسگی کے واقعات بے قابو
قیام پاکستان سے لیکر ستر سال گزر جانے کے باوجود اب تک ہمارا تعلیمی نظام ملک کے ہرحصے میں ایک دوسرے سے جداگانہ ہے ۔ اس مضمون پر بحث کافی طویل ہے جو حلقہ ادب میں جاری رہتی ہے تاہم تدریسی جامعات کا حال بھی اب پوشیدہ نہیں رہا ہے جہاں روز بروز جنسی ہراسگی کے واقعات بے قابو ہوتے جارہے ہیں۔
تدریسی جامعات میں جاکر عمدہ تعلیمی ماحول میں رہتے ہوئے تعلیم مکمل کرنے کا خواب لڑکے اور لڑکیاں دونوں ہی دیکھتے ہیں کیوں کہ خواب دیکھنے میں حرج نہیں اور اس پر ابھی تک ٹیکس بھی نہیں لگا ہے۔ اس لیے یہ کام نہایت شوق کے ساتھ کیا جاتا ہے۔ کچھ سنجیدہ طالب علم اپنے خواب کو شرمندہ تعبیر کرتے بھی ہیں البتہ ہمارے معاشرے میں نوجوانوں کی اکثریت اپنی ذمہ داریوں کے بوجھ تلے دب کر ، خوابوں کو سپرد خاک کرکے روزگار کے حصول میں مصروف ہوجاتی ہے۔
گزرتے وقت کے ساتھ جامعات کی تعداد میں ضرور اضافہ ہوا ہے تاہم اس کے ساتھ ہی پہلے سے موجود یونیورسٹیز کا پستی کا سفر بھی پوری آب و تاب کے ساتھ جاری ہے۔ جن میں کبھی کوئی مشعال قتل ہوجاتا ہے تو کبھی طلبا لڑ جھگڑ کر اپنے اپنے نظریات کا دفاع دلائل کے بجائے ڈنڈوں ، لاٹھیوں سے کرتے نظر آتے ہیں، کہیں اساتذہ تنظیمیں ایک دوسرے کے مدمقابل آجاتی ہیں اور کہیں طالب علم انتظامیہ کے بلاک کے سامنے دھرنوں میں فیسوں کے اضافے کے خلاف سراپا احتجاج ہوتے ہیں، ہمارا مستقبل تباہ نہ کیا جائے لیکن خیر صاحب اقتدار کو کیا!! ان کی دبیز سلامت کرسی ابھی موجود ہے ان کے لیے یہی کافی ہے۔
عوام طلبا تنظیموں کے جھگڑوں کی خبروں کے اس قدر عادی ہوچکے ہیں کہ اب انہیں معمول سمجھ کر کوئی خاص اہمیت ہی نہیں دی جاتی۔ یہاں تک کہ ان میں کون سی پارٹی صحیح موقف پر تھی اور کون غلط کوئی اس بات کو جاننے تک کی کوشش نہیں کرتا۔
یہاں تک تو سب پھر بھی ٹھیک ٹھاک تھا لیکن اب ایک خوفناک صورتحال خبروں کے ذریعے عوام کے سامنے آئی ہے جس نے لوگوں میں اور خاص کر ان والدین کے ہوش اڑا کر رکھ دیے ہیں جن کی بچیاں جامعات میں پڑھتی ہیں، وہ ان پر اپنا تمام تر سرمایہ خرچ کرتے ہیں اور یہ باعزت طلبا، طالبات تمام تر خرافات کو ٹھوکر مار کر ہر صورت اپنی عزت کی حفاظت کرتے ہو ئے توجہ سے اپنی تعلیم حاصل کرتے ہیں، برائی اور اچھائی دونوں ساتھ ساتھ ہی چلا کرتی ہیں اس میں کوئی دو رائے نہیں ہے۔
حال ہی میں ملک کے انتہائی معتبر نشریاتی ادارے نے خبر نشر کی کہ جامعہ کراچی کی طالبات نے شکایت کی ہے کہ شعبہ ابلاغ عامہ کے اسسٹنٹ پروفیسر اور معاون اُستاد اپنی تسکین کے لیے انہیں ہراساں کرتے ہیں اور جناب واٹس ایپ پر غیر اخلاقی پیغامات بھی بھیجتے ہیں۔
انتہا تو یہ ہے کہ متاثرہ طالبات نے جامعہ کے متعلقہ حکام کو ثبوت کے ساتھ تحریری شکایت جمع کرائی ہے جس میں یہ بھی لکھا ہے کہ استاد محترم کی خواہش ہوتی ہے کہ ان کے ساتھ تعلقات قائم کیے جائیں اور اگر کوئی ان کی بات ماننے سے انکار کردے تو اس کو فیل کرنے کی دھمکی دی جاتی ہے ۔ پروفیسر صاحب اپنے کمرے میں طالبات کو طلب کرتے ہیں اور اس موقع پر روم کو قفل بھی لگادیا جاتا ہے۔ واہ کیا استادی ہے !!!
جامعہ کراچی کی طالبات نے الزام عائد کیا ہے کہ ان کو پروفیسر نے جنسی ہراساں کرنے کی کوشش کی ۔ اگرالزامات درست ہیں تو بحیثیت قوم ہمیں سمندر میں بھی ڈوبنے کے لیے جگہ نہیں ملے گی اور اگرالزمات جھوٹے ہیں تو طالبات کو قرار واقع سزا دی جائے۔
ایسی جامعہ جہاں امتحانات کے نمبر دینے کا معاملہ استادِ محترم کے ہاتھوں میں ہوتا ہے تو یقینی طور پر ایسے الزامات کے سچے ہونے کو تقویت ملتی ہے۔ بہرحال یہ تو تحقیق کے بعد ہی آشکار ہوگا کہ الزامات جھوٹے ہیں یا سچائی پر مبنی ہیں۔
طالب علموں کو یہاں مشورہ دینا ضرور ہے کہ آپ کو بغیر کسی حجت کے پروفیسر کی ہاں میں ہاں ملانی چاہیے اگرچہ وہ آپ سے عزت ہی کیوں نہ مانگیں کیوں کہ یہ مقدس گائے ہیں اس لیے ہرصورت ان کی بات کو تسلیم کرنا لازم ہے ورنہ شاید آپ اپنی سند کے حصول کا خواب کبھی بھی پورا نہ کرسکیں۔
یہ بحث ایک طرف کہ ان الزامات میں کتنی صداقت ہے ۔ اگر استاد اپنی جگہ درست ہے تو کسی مہذب شخص کی عزت کو پامال کرنے کی یہ انتہائی گری ہوئی حرکت ہے جس پر طالبات کے خلاف سخت ترین کارروائی کی جانی چاہیے لیکن اگر یہ الزامات درست ثابت ہوجاتے ہیں تو ہمارے معاشرے کی پستی اور گراوٹ کا اس سے بھیانک روپ شاید اور کوئی نہ ہو جہاں حرمت سکھانے والا معلم ہی غلیظ نیت کے ساتھ بے حرمتی کرنے کے جرم کا ارتکاب کرتا ہو۔
اقتدار کی مسند پر فائز حکومتی عہدیداروں کا فرض ہے کہ اساتذہ کی حرمت کو یقینی بنانے کا بندوبست کریں کہ ان پر کوئی الزامات نہ لگا سکے اور اسی طرح اگر کوئی استادی کے اعلیٰ لباس میں اپنے غلاظت کو چھپائے ہوئے ہے تو اس کی حقیقت کو دنیا کے سامنے لاکر مثال قائم کرے تاکہ والدین اپنے بچوں کو سکونِ قلب کے ساتھ جامعات میں بھیجیں اور ملک کو ہونہار معمار ملتے رہیں جو اس کی جڑوں کو قوت اور تازگی بخشیں اور قوم کا سربلند کرسکیں۔