تعزیتی اجلاس

کراچی( عبدالستار مندرہ )آج کا یہ تعزیتی اجلاس چار بہت اہم شعراءکے حوالے سے ہے اس میں اعجاز رحمانی ، لیاقت علی عاصم ، عارف شفیق اور اکبرمعصوم سے ہے ۔ یہ چاروں اپنے اپنے انداز کے بہت منفرد شعراءہیںانہوںنے ادب میں بہت کام کیا اورخدمت کی ان چار شعراءنے ادب میں بہت نام بنایااور اپنی سطح پہ اپنے اپنے مقام سے بالا تر ہوکر ادب کا حصہ رہے ان شعراءکوہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔ان خیالات کا اظہار چیئرپرسن ادبی کمیٹی( شعرو سخن )ڈاکٹر عنبرین حسیب عنبر نے تعزیتی ریفرنس میں کرتے ہوئے کیا۔ انہوں نے کہا کہ ان چاروں میں سے تین شعراءکا آپس میں بڑا ساتھ رہا ان شخصیات نے طویل عرصے تک بے شمار مشاعرے ساتھ پڑھے اور ان چاروں شعراءکا اسلوب بالکل مختلف تھا۔اعجاز رحمانی کا نعت میں ایک بہت بڑا نام اور بالکل مختلف اندازہوتا تھا اور ان کا ترنم بے انتہا پسند کیا جاتا تھا بلکہ کئی لوگ ان کے ترنم کی کاپی کرتے ہیں اور ان کے ترنم میں پڑھنے کی کوشش کرتے ہیںوہ پاکستان کے علاوہ دنیا کے کئی ممالک میں مقبول شخصیت تھے ۔ لیاقت علی عاصم نہایت خود دار شخصیت تھے یہ ان کی بہت بڑی کامیابی ہے کہ انہوں نے اپنے آ پ کو اپنے بعد آنے والی نسل سے بھی جوڑے رکھااور لیاقت علی عاصم کا اپنے طالب علموں کے ساتھ بھی ایک مضبوط رشتہ تھا ۔عارف شفیق صرف شاعر نہیں تھے وہ ایک نڈر صحافی بھی تھے شاعری ہو یا صحافت انہوں نے وہ باتیں کیں جو اس دور میں بات کرنا بہت بڑی بات تھی ۔ کیوں کہ وہ ایک صاف گو اوربہت شفقت برتنے والے انسان تھے ۔اکبر معصوم سے ایک دن ہمیں ملاقات اور گفتگو کا شرف حاصل ہوااور وہ ایک با وقار شخصیت تھے جس کے چہرے پر ہمہ وقت ایک مسکراہٹ گفتگو میں انکسار موجود تھا وہ بھی ایک نہایت منفرد اسلوب کے شاعر تھے اور ان کا تخیل ہی الگ تھا ۔ انوار احمد زئی نے کہا کہ یہ چار شعراءغروب ہونے والی شخصیات نہیں ہیں جن میں اعجاز رحمانی سرفہرست ہیںاعجاز رحمانی حمدیہ اور نعتیہ کلام پڑھتے تھے لیکن انہوں نے غزلیات کو بھی لکھنا نہیں چھوڑا اعجاز رحمانی کے ساتھ ساتھ عارف شفیق کی بہت انقلابی اور بہت اعلیٰ درجے کے شاعر تھے انہوں نے اپنی شاعر ی سے دنیا میں نام کمایا۔نذر فاطمی نے کہا کہ اعجاز رحمانی کی بہت سی شاعری ایسی ہیں جس پر انہوں نے اپنی زندگی گزاری اور اپنی شاعر ی کو توازن رکھتے ہوئے اپنی پوری نعت گوئی کا رخ اختیار کیا ۔رخسانہ صبا نے کہا کہ یہ چاروں بہت بڑے اور مایہ ناز شاعر تھے لیاقت علی عاصم شہر غزل کے باکمال مسافر تھے اور ستارہ وار سفر کرتے ہوئے تخلیقی ہنر مندی کی منزل تک جا پہنچے اور ان میںجو خا ص بات نظر آتی ہے وہ یہ ہے کہ پرانی عادتوں کو معنوعیت کے ساتھ انہوں نے اس طرح استعمال کیا کہ آپ ان کے مجموعہ ¿ کلام پڑھتے چلے جائیں بار بار دل پہ ہاتھ جا پڑھتا ہے منصور ساحر نے کہا کہ عارف شفیق ایک قلندرصفت انسان تھے وہ اپنی اولاد کوسچائی تو دے گئے اس کے علاوہ عارف شفیق کچھ نہیں دیا اور یہ ان کے لیے بہت بڑی دولت ہے جو ان کی بچے علی اور احمد میں موجود ہیںعارف شفیق اور میرا تعلق برسوں پرانا ہے انہوںنے کراچی شہر کے اچھے اور برے حالات کو بھی اپنی شاعری کے ذریعے ظاہر کیا کیوں کہ وہ کراچی کے ساتھ ساتھ پورے پاکستان کی آواز تھے۔لیاقت علی عاصم کے صاحبزادے سیف اللہ نے کہا کہ میرے والد ہمارے لیے گھر میں ایک دوست زیادہ تھے بچپن میں ان کی انگلی تھام کر میں چلا ہوںاور ہمارا ان کے ساتھ بہت اچھا وقت گزر اوہ ایک سادہ مزاج انسان تھے اور یہ چاروں شخصیات شہر کی نمایاں اور قابل تعریف شخصیات تھیں۔ اظہار خیال کرنے والوں میں ندیم ظفر، ڈاکٹر فہیم شناس کاظمی، سعید الدین ،محمد علی عارف ، ریحانہ روحی ،جہانگیر خان اورعمار اقبا ل شانل تھے اوران چاروں شعراءکے حمدیہ، نعتیہ اشعار، غزلیات اور دیگر اشعار بھی پیش کئے۔نظامت کے فرائض خالد معین نے سر انجام دیئے ۔

About BLI News 3238 Articles
Multilingual news provider for print & Electronic Media. Interviews, Exclusive Stories, Analysis, Features, Press Conferences Photo & Video Coverage and Economic Reviews, Pakistan and Worldwide. Opinions, Documentaries & broadcast.