اسلام آباد(بی ایل ٰآئی ) فیض آباد انٹر چینج پر پولیس اور ایف سی کے ہزاروں اہلکار دن بھر کی کوششوں کے باوجود علاقہ کلیئر نہیں کرا سکے جب کہ حکومت نے امن و امان کو یقینی بنانے کے لیے وزارت داخلہ کی درخواست پر اسلام آباد میں فوج طلب کرلی ہے ،شام 4 بجے سے آپریشن بھی معطل ہے جس کی وجہ سے فیض آباد پر ایک مرتبہ پھر مظاہرین جمع ہوگئے ہیں۔ دوسری طرف فیض آباد انٹرچینج پر دھرنے کے خلاف سیکیورٹی فورسز کے آپریشن کے دوران مظاہرین سے جھڑپوں میں سیکیورٹی اہلکاروں سمیت 201 افراد زخمی ہوگئے جب کہ پولیس نے 300 سے زائد مظاہرین کو گرفتار کرلیا ہے۔
تفصیلات کے مطابق فیض آباد انٹر چینج پر دھرنا ختم کرنے کی آخری ڈیڈلائن گزرنے کے بعد پولیس اور ایف سی اہلکاروں کی بھاری نفری نے علاقے کو کلیئر کرنے کے لی آج علی الصبح ے آپریشن کا آغاز کیا جس کے نتیجے میں مظاہرین اور اہلکاروں کے درمیان شدید جھڑپیں ہوئیں اور سارا دن علاقہ میدان جنگ کا منظر پیش کرتا رہا ،آپریشن میں پولیس اور ایف سی کی بھاری نفری نے حصہ لیا، جنہوں نے مظاہرین کو منتشر کرنے کے لیے وقفے وقفے سے آنسو گیس کی شیلنگ اور واٹر کینن کا استعمال کیا جب کہ اس دوران 300 سے زائد مظاہرین کو بھی گرفتار کرلیا گیا۔ صبح سے جاری آپریشن دوپہر ڈیڑھ بجے بند کر دیا گیا جبکہ شام 4 بجے سے فیض آباد انٹر چینج سے پولیس اہلکار بھی غائب ہونا شروع ہو گئے جب کہ مظاہرین کے جتھے ایک مرتبہ پھر علاقے میں پہنچنا شروع ہوگئے ہیں۔
فیض آباد میں دھرنے کے مقام پر مظاہرین نے ہفتے کی صبح سے پولیس کی 12 گاڑیوں اور کئی موٹرسائیکلوں کو نذر آتش کردیا جبکہ کئی سڑکیں بھی بند کردی گئی ہیں۔اسلام آباد اور راولپنڈی کے مختلف ہسپتالوں میں 200 سے زائد زخمی لائے گئے جن میں61 پولیس اہلکار اور 47 ایف سی کے جوان شامل ہیں جھڑپوں میں زخمی ہونے والوں میں راولپنڈی کے پولیس چیف اسرار عباسی، ایڈیشنل ڈپٹی کمشنر کیپٹن شعیب اسسٹنٹ کمشنر عبدالہادی، ڈی ایس پی عارف شاہ، ایس ایچ او تھانہ آئی نائن اور ایس ایچ او تھانہ بنی گالہ بھی شامل ہیں۔ مظاہرین نے درختوں اور سامان کو بھی آگ لگادی جبکہ کیپٹن شعیب کی گاڑی کو بھی مظاہرین نے نذرآتش کردیا تھا ۔مشتعل مظاہرین نے سابق وزیرداخلہ چوہدری نثار علی خان کے گھر کا گیٹ توڑ دیا جس کے بعد ان کے گھر کی سیکیورٹی پر مامور پولیس اہلکاروں نے سابق وزیر داخلہ کو بکتر بند گاڑی میں بٹھا کر محفوظ مقام پر منتقل کیا لیکن مظاہرین بکتر بند گاڑی پر بھی پتھر برساتے رہے جبکہ دوسری طرف پسرور کے علاقے ککے زئی میں مشتعل افراد نے وفاقی وزیر قانون زاہد حامد کے گھر پر حملہ کردیا اور گھر میں داخل ہوکر توڑ پھوڑ کی، پولیس کا کہنا ہےکہ حملے کے وقت زاہد حامد اور ان کے اہل خانہ گھر پر موجود نہیں تھے۔
ڈی جی آئی ایس پی آر میجر جنرل آصف غفور کی جانب سے سماجی رابطوں کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر جاری ہونے والے پیغام میں بتایا گیا ہے کہ آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے وزیراعظم شاہد خاقان عباسی سے ٹیلی فونک رابطہ کر کے انہیں دھرنے کو پرامن طریقے سے حل کرنے کا مشورہ دیا۔
تحریک لبیک کے دھرنا مظاہرین کے خلاف کارروائی پر ردعمل دیتے ہوئے عمران خان نے کہا کہ مظاہرین کو منتشر کرنے کے لیے ریاستی طاقت کا استعمال کسی صورت معاملے کا حل نہیں ہے،حکومت مظاہرین کے خلاف طاقت کا استعمال نہ کرے جب کہ دھرنا مظاہرین بھی پرامن رہیں۔عمران خان نے کہا کہ ختم نبوت ہمارے ایمان کابنیادی جزو اورحصہ ہےجس نااہلی سے حکومت نے معاملے کو نمٹانے کی کوشش کی اس سے ریاست کی رٹ ٹوٹتی نظرآرہی ہے، راجہ ظفرالحق کی کمیٹی کی تحقیقات کی روشنی میں ذمہ داروں کے خلاف کارروائی کیوں نہیں کی گئی اس لیے ذمہ داروں کے خلاف کارروائی میں تاخیر سے کچھ چھپائے جانے کے تاثر نے جنم لیا ہے۔