اسلام آباد (تبصرہ / انصار عباسی ) اقتصادی بدحالی سے عوام کی توجہ ہٹانے میں تحریک انصاف شاید جزوی طور پر کامیاب ہوئی ہے ، اپنے دور اقتدار کے اول 5 ماہمیں حکمراں جماعت اپوزیشن کیلئے چور، ڈاکو کا منتر دہراتی رہی، لیکن درحقیقت اس رویہ اور حکمت عملی نے ملکی اقتصادیات کو زیادہ نقصان پہنچایا ہے ۔ حکومت نے اپوزیشن سے تصادم مول لینے کا کوئی موقع نہیں جانے دیا، سیاسی درجہ حرارت بڑھانے کی وجوہ ڈھونڈتی رہی، یہی بات عمران خان کی قیادت میں حامیوں اور ووٹرز کو مالی سمت میں تیزی سے بدسے بدتر ہوتی باتوں اور بگڑتی صورتحال پر غور و فکر سے روک رکھا ہے ۔ گزشتہ 5 ماہ کے دوران کوئی دستور سازی نہیں ہوئی۔ تحریک انصاف کا اصلاحات کیلئے ایجنڈا اور ادارہ سازی نچلی ترجیح سطح پر حتیٰ کہ حکمرانی بھی انتشار کا شکار ہے ۔ خصوصاً پنجاب اس کا شکار ہے ، تاہم حکمراں جماعت کی اعلیٰ قیادت اب تک یہ سمجھنے یا باور کرنے میں ناکام ہے کہ اس کی محاذ آرائی کی پالیسی فائدے سے زیادہ نقصان کا باعث بن رہی ہے ۔ حکومت اقتصادی درستی کیلئے
چاہے کتنے ہی غیر معمولی حل لے آئیں، اس کا کوئی فائدہ نہیں ہوگا جب تک تحریک انصاف سیاسی استحکام کیلئے اپنی حکمت عملی تبدیل نہیں کرتی، جو سرمایہ کاری اور اقتصادی نمو کیلئے نہایت اہمیت کی حامل ہے ۔ گلوبل اکنامک کنڈیشنز سروے کے مطابق 2018 کی آخری سہ ماہی میں پاکستان کا اقتصادی اعتماد متزلزل ہوا اور وہ اقتصادی عدم توازن کو درست کرنے کی جدوجہد میں ہے ۔ 3800 اکائونٹنٹس کے بین الاقوامی جائزے کے مطابق جو اے سی سی اے اور آئی ایم نے کیا۔ جی ای سی ایس کے تازہ شمارے میں پاکستان کی اقتصادیات کو جنوبی ایشیاء ممالک میں سب سے کم ترین قرار دیا گیا ہے ، جولائی 2018 سے نومبر 2018 کے درمیان قرضوں کا مجموعی حجم 2.24 ٹریلین روپے ہوگیا جو تحریک انصاف کی حکومت میں یومیہ 15 ارب روپے کا اضافہ ہے ۔ مسلم لیگ ( ن) کے دور حکومت میں یہ یومیہ 7.7 ارب روپے اور پیپلز پارٹی کے دور حکومت میں 5 ارب روپے یومیہ تھا۔ قرضوں میں اضافے کا ایک حصہ اسٹیٹ بینک سے لئے قرضوں پر مشتمل ہے جس کا دسمبر 2018 تک مجموعی حجم 1.43 ٹریلین روپے رہا جو 2017 کے مقابلے میں 5 گنا زیادہ ہے جو 288 ارب روپے تھا۔ مسلم لیگ (ن) کے 5 سالہ دور حکومت میں قرضوں کی مالیت 10 ٹریلین روپے رہی، جبکہ تحریک انصاف کے اقتدار کے تین سال میں قرضہ 10 ٹریلین روپے سے بڑھ جانے کا خدشہ ہے ۔ اسی طرح گردشی قرضہ جون کے آخر تک 1.14 ٹریلین روپے تک پہنچ گیا ، جو نومبر کے آخر تک 1.362 ٹریلین روپے تھا۔ اس طرح گردشی قرضے میں تقریباً 300 ارب روپے کا اضافہ ہوا ۔ یہ اعداد و شمار سیکرٹری پاور عرفان علی نے پبلک اکائونٹس کمیٹی کے اجلاس میں فراہم کئے، جس سے گردشی قرضے میں اضافے کی رفتار کا اندازہ کیا جا سکتا ہے ۔ تحریک انصاف کے دور حکومت میں جس کی نظیر نہیں ملتی۔ اکتوبر تا دسمبر کی سہ ماہی میں اسٹاک مارکیٹ کی کارکردگی 10 سال کے عرصہ میں بدترین رہی۔ چین، سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات جیسے دوست ممالک کے مالی تعاون کے باوجود زرمبادلہ ذخائر میں مسلسل کمی واقع ہو رہی ہے ، سب سے زیادہ منفی اسٹیک ہولڈر غیر ملکی سرمایہ کار ہے ، جب سے تحریک انصاف کی حکومت برسر اقتدار آئی ہے غیر ملکی مسلسل اپنا سرمایہ نکال رہے ہیں۔ ٹیکس ریونیو میں اضافہ کا اپنا وعدہ پورا کرنے میں بھی حکومت ناکام ہے جس میں 175 ارب روپے کا خلا آگیا ہے ۔ اسٹیٹ بینک کا پالیسی ریٹ جو ن لیگ کے دور حکومت میں 5.75 فیصد تھا بڑھ کر 10 فیصد ہوگیا جو 5 سال میں بلند ترین ہے ۔ پالیسی ریٹ میں اضافے کے ساتھ روپے کی قدر میں کمی ہے قرضے نمٹانے میں 700 سے 800 ارب روپے کا فرق آگیا ہے ۔ ماہرین کے مطابق اضافی اخراجات اضافی ٹیکس لگا کر ہی پورے کئے جا سکتے ہیں ، جس سے عوام کی قوت خرید مزید کم ہو جائے گی یا حکومتی اخراجات کم کرنے ہوں گے اور ایسا ہوتا نظر نہیں آتا۔ اس کے علاوہ پالیسی ریٹ میں اضافے سے شرح سود بڑھ جائے گی ۔ جولائی تا دسمبر 2018 براہ راست غیر ملکی سرمایہ کاری 19 فیصد کم ہوگئی۔ ان سنگین اقتصادی حالات میں تحریک انصاف کی حکومت کو اپنی حکمت عملی پر نظر ثانی کی شدید ضرورت ہے ۔ اسے کاروبار اور سرمایہ کاری کیلئے سازگار ماحول بنانا ہوگا ، جب اپوزیشن سے روزانہ کے جھگڑے ہوں تو کاروبار اور سرمایہ کاری دوست ماحول نہیں بنایا جا سکتا۔تاہم حکومت حلقے دعویٰ کرتے ہیں کہ حالات جلد بہتر ہوجائیں گے ، برآمدات بڑھیں گی اور خوشحالی آئے گی۔