فرقان علی
تعلیم اور فنی تربیت ایک ایسا مربوط نظام ہے ،جس کے ذریعے نوجوان باعزت روزگار کما کر بہترین زندگی گزارنے کے قابل ہوجاتے ہیں۔ فنی تربیت انسان کی مخفی صلاحیتوںکوسامنے لاتی ہے، تاکہ وہ معاشی طور پر خوش حال زندگی بسر کر سکے۔اگر ہم انسانی تاریخ کا مطالعہ کریں تو معلوم ہوتا ہے، کہ انسان زمانہ قدیم سے ہی ترقی کا خواہاں رہا ہے ۔وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ تیزی سے بڑھتی ہوئی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے اس نے نت نئی ایجادات اور دریافتوں کا سہارا لیا ،جو انسانی ترقی کا پیش خیمہ ثابت ہوا۔ابتدا میں ترقی کی یہ رفتار سست تھی ،لیکن گزشتہ چند عشروں میں دنیا نے ہر میدان میں حیران کن ترقی کی ہے۔
ہمارے ملک کی آبادی تیزی سے بڑھ رہی ہے، جس میں نوجوانوں کی اکثریت ہے، جو کسی بھی ملک کے لیے خو ش آئند امر ہے، لیکن تعلیم اور ہنر مندی سے محروم یہ نوجوان ملکی معیشت کا سہارا بننے کے بہ جائے بڑھتی ہوئی بے روزگاری کی وجہ سے بوجھ ثابت ہورہے ہیں۔آج بھی کروڑوں بچے پرائمری اور سیکنڈری لیول کی تعلیم سے محروم ہیں۔نسل نو کی اکثریت تعلیم اور ہنر نہ ہونے کی وجہ سے جرائم کی راہ پر چل پڑتی ہے،یا گلیوں ،سڑکوں پر گھومتی نظر آتی ہے۔ یونیورسٹی سے فارغ ہونے والے طلباء بھی ڈگری ہونے کے باوجود عملی تربیت اور ہنر نہ ہونے کی وجہ سے بے روزگاری کی زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ اگر ان کے نصاب میں کوئی ایک بھی فنی کورس شامل ہو،تو انہیں مایوسی کا سامنا ہرگز نہیں کرناپڑے گا۔ روزگار کے اعداد وشمار سے متعلق ادارے کے ایک سروے کےمطابق تیس پیشے کام یاب تصور کیے جاتے ہیں ،جن میں سے نصف کے لیے یونیورسٹی ڈگری کےبہ جائے عملی تربیت ضروری تصور کی جاتی ہے۔بلاشبہ جن ممالک نے فنی تعلیم کو اپنی عمومی تعلیم کا حصہ بناکر اس پر توجہ دی وہاں معاشی ترقی کی رفتار زیادہ ہے۔ ہمارے ہاں بھی ارباب اقتدار و اختیار اس امر کا اعتراف تو کرتے ہیں کہ ہمارامستقبل فنی تعلیم سے جڑا ہے اور نوجوان نسل کو فنی علوم سے آراستہ کرکے نہ صرف بے روزگاری کے مسئلے پر قابو پایا جاسکتا ہے بلکہ ملک کو ترقی و خوش حالی کی راہ پر بھی گامزن کیا جاسکتا ہے،لیکن اس کے فروغ کے لیے قابل ذکر پیش رفت نہیں کی جاتی۔ دنیا میں انہی قوموں نے تیزی سے ترقی کی منازل طے کی ہیں، جنہوںنے اپنی نوجوان نسل کو عہدِ حاضر کی ضروریات سے ہم آہنگ کرتے ہوئے جدید علوم سے آراستہ کیا ۔ نسل نو کو جدید علوم، انفارمیشن ٹیکنالوجی اور مارکیٹ کی ضروریات کے مطابق مختلف فنون و شعبہ جات میں تربیت دے کر ملک کی تیز رفتار ترقی اور خوشحالی کا خواب شرمندہ تعبیر کیا جاسکتا ہے۔
اگر وسائل کو نوجوانوں کوفنی تعلیم دینے کے لیے بروئے کار لایا جائے، تو ملک سے غربت اور بے روزگاری ،کا نام و نشان مٹایا جاسکتا ہے۔چینی زبان میں مثال دی جاتی ہے کہ آدمی کو مچھلی نہ دو بلکہ اسے مچھلی پکڑنا سکھادو۔ضرورت اس امر کی ہے کہ عمومی تعلیم کے ساتھ ساتھ فنی تعلیم کو بھی لازمی طور پر رائج کیا جائے ۔ اس کے لیے مڈل اور میٹرک کی سطح سے ہی ایک ٹیکنیکل کورس بطور لازمی مضمون پڑھانا چاہیے تاکہ طالب علموںکا فنی تعلیم کی جانب رجحان پیدا ہو اور وہ ضرورت پڑنے پرہنر سے استفادہ کرسکیں۔موجودہ فنی تعلیمی ادارے بڑھتی ہوئی آبادی کی ضرورت پوری کرنے کے لیے ناکافی ہیں ،اس لیے فنی تعلیمی اداروں کی تعدا د میں اضافہ کیا جائے اور عام آدمی کی رسائی کو آسان بنایا جائے۔اس کے علاوہ ملک کے پس ماندہ اور دور دراز کے علاقوں میں فنی تعلیم کو ضرور فروغ دینا چاہیے تاکہ دیہات کے نوجوان بھی آگے بڑھ سکیں اور ملک و ملت کے لیے کارہائے نمایاں انجام دے سکیں۔فنی تعلیم کے شعبے کےفروغ اور آگہی کے لیے جامع منصوبہ بندی کی ضرورت ہے۔ مقتدر حلقوں کو چاہیے کہ ایک آزاد اور خودمختار بورڈ تشکیل دے ،جو جدید دور کے تقاضوں اورمارکیٹ کی ضروریات کو مد نظر رکھتے ہوئے تیزی سے ہنرمند افرادی قوت تیار کرنے کے لیےاقدامات کرے۔فنی تعلیم کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگا لیں کہ اخبارات میں بیرون ملک نوکری کے لیے آنے والے اشتہارات میں سب سے زیادہ ٹیکنیکل کے شعبے کی نوکریاں ہی دکھائی دیتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ آج بھی والدین اپنے بچوں کو بچپن سے ہی ڈاکٹر اور انجینئر بنانے کے خواب دیکھنے تک ہی محدود ہیں۔ہمارے ملک میںفنی تعلیم کے اداروں کی تعداد نوجوانوں کی تعداد کے لحاظ سے ناکافی ہے، کیوں کہ نوجوانوں کی ایک بڑی کھیپ تعلیمی اداروں سے فارغ ہوکر روزگار کی تلاش میں نکلتی ہے، جن میں سے اکثر تجربہ نہ ہونے کی وجہ سے مسترد ہوجاتے ہیں۔ اگر ان کے نصاب میں کوئی ایک بھی فنی کورس شامل ہو، تو انہیں مایوسی کا سامنا نہ کرنا پڑے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ فنی تعلیم سے آگہی، فروغ اور اس جانب رجحان کے لیےابتدائی جماعتوںسے ہی ایک یا دو ٹیکنیکل کورسز کو نصاب کا حصہ بنایا جائے۔ دوسری جانب ٹیکنیکل کورسز کے موجودہ نصاب کودور حاضر کی جہتوں اور طا لب علموںکی ذہنی صلاحیتوں سے ہم آہنگ کرنے کی ضرورت ہے۔ ملکی تعمیر و ترقی میں جامعات اہم کردار ادا کرتی ہیں، لیکن ان کے ساتھ فنی اور پیشہ ورانہ تربیتی اداروں کی اہمیت بھی کچھ کم نہیں ہے۔ہمارے ملک میں سب ہی فنی تعلیم کی اہمیت سے بہ خوبی واقف ہیں، اس کی ترویج کے لیے چند ادارے بھی قائم ہیں ،لیکن اوّل ان اداروں کی تعداد آٹے میں نمک کے برابر ہے اورانہیں وہ اہمیت نہیں دی جاتی، بلکہ اہمیت تو درکنار فنی تعلیمی اداروں کے قیام پہ بھی توجہ نہیں دی جا رہی۔ ہمارے ہاں تو یہ تاثر عام ہے کہ، پڑھائی میں کمزور یا نالائق طالب علم ہی فنی تعلیم حاصل کرتے ہیں۔ ملکی ترقی کے لیے ضروری ہے، کہ فنی و پیشہ ورانہ تعلیم کی اہمیت کو واضح طور پر اُجاگر کیا جائے۔نوجوانوں کو تعلیم حاصل کرنے کے ساتھ اس کا صحیح استعمال بھی کریں ، ایسا ممکن ہوا تو وہ دن دور نہیں کہ ہمارا شمار بھی ان ممالک میں ہوگا،جو جدید علوم سے آگاہی رکھتے ہیں۔