جرمن دارالحکومت برلن میں رواں سال اب تک جیب کترے 50 ہزار افراد کی جیبیں صاف کر چکے ہیں۔
جرمن نیوز ایجنسی نے پولیس حکام کے حوالے سے رپورٹ میں بتایا کہ آبادی کے لحاظ سے جرمنی کے سب سے بڑے شہروں میں شمار ہونے والے وفاقی دارالحکومت میں جیب تراشی کا رجحان ڈرامائی حد تک زیادہ ہو چکا ہے۔پولیس کے مطابق یہ کام چند واقعات میں چھوٹے چھوٹے جرائم کے مرتکب مقامی مجرموں کے علاوہ زیادہ تر ان منظم جرائم پیشہ گروپوں کی طرف سے کیا جاتا ہے۔
رپورٹس کے مطابق اکثر واقعات میں جنوب مشرقی یورپی ملکوں سے آنے والے تارکین وطن ملوظ ہوتے ہیں ۔جیب تراشی قانونی طور پر چوری کے زمرے میں آتی ہے، جس کے بارے میں برلن کی پولیس کا کہنا ہے کہ اس سال یکم جنوری سے اب تک اس شہر میں ایسے 50 ہزار کے قریب واقعات پیش آ چکے ہیں۔
اندازہ ہے کہ اصل تعداد اس سے بھی کہیں زیادہ ہو گی کیونکہ ایسا ہر وہ مقامی باشندہ یا سیاح جو جیب تراشوں کا نشانہ بنتا ہے، لازمی نہیں کہ وہ اس جرم کی پولیس کو رپورٹ بھی درج کرائے۔پولیس کے مطابق یہ تعداد گزشتہ برس کے مقابلے میں 25 فیصد زیادہ ہے اور سال 2009 اور 2010 کے مقابلے میں ایسے جرائم کی شرح چار گنا ہو چکی ہے۔
رپورٹ کے مطابق عام لوگوں یا سیاحوں کی جیبیں کاٹنے کے واقعات میں یہ اضافہ پولیس کی ان کوششوں کے باوجود دیکھنے میں آرہا ہے، جن کے تحت پرہجوم عوامی مقامات پر لاؤڈ سپیکروں کے ذریعے یہ اعلانات بھی کیے جاتے ہیں کہ لوگ اپنی قیمتی اشیاء کی حفاظت کریں اور جیب کتروں سے بھی خاص طور پر ہوشیار رہیں۔