کراچی:
سندھ ڈیلٹا کے علاقے میں دریائی بہاؤ کمزور ہونے کے باعث سمندر دریا کو کئی کلومیٹر پیچھے دھکیل چکا ہے اور اس سے زرخیز ڈیلٹا کی 55 لاکھ ہیکٹر اراضی مکمل طور پر تباہ ہوچکی ہے۔
غربت کے خاتمے اور انسانی فلاح کی بین الاقوامی تنظیم ’اوکسفام‘ پاکستان نے چند روز قبل اپنی ایک رپورٹ شائع کی ہے جس میں کہا گیا ہے کہ سندھ ڈیلٹا کے علاقے میں دریائی بہاؤ کمزور ہونے کے بعد سمندر دریا کو کئی کلومیٹر پیچھے دھکیل چکا ہے بلکہ اس سے زرخیز ڈیلٹا کی 5 لاکھ ہیکٹر اراضی مکمل طور پر تباہ ہوچکی ہے۔
اس کی وجہ یہ ہے کہ دریا اور سمندری بہاؤ کے درمیان توازن اس وقت تک قائم رہتا ہے جب تک دریا سے پانی کی خاص مقدار سمندر میں گرتی رہتی ہے تاہم پانی کی شدید کمی کی وجہ سے سمندری پانی دریا کے راستے اوپر چڑھ گیا ہے اور گزشتہ 16 برس میں سمندری پانی سندھ ڈیلٹا میں 85 کلومیٹراندر تک گھس آیا ہے جس کی وجہ سے ایک جانب تو اطراف کے زرخیز کھیت ختم ہو گئے ہیں تو دوسری جانب خود سمندر نے بھی زرخیز زمین کو نگلنا شروع کردیا ہے۔
اس کے علاوہ موسمیاتی تبدیلیوں اور شدید موسمیاتی کیفیات سے ماہی گیری، پولٹری فارمنگ اور کھیتی باڑی متاثر ہوئی ہے۔ روز بروز کم ہوتے وسائل سے لوگ نقل مکانی پر مجبور ہیں۔ بدین کے علاقے میں 65 فیصد افراد اسی روزگار سے وابستہ رہے ہیں لیکن اب وہاں کے باسیوں پر زندگی تنگ ہوتی جا رہی ہے۔
رپورٹ کے مطابق 2001 اور 2002 تک بدین ایک زرخیز علاقہ تھا جہاں 82,200 ہیکٹر علاقہ سرسبز تھا اور 2016 میں یہ زمین گھٹتے گھٹتے صرف 61,900 ہیکٹر رہ گئی جس کی وجہ سے خوراک اور زراعت کا نظام بری طرح متاثر ہوا، اب یہاں کے لوگ دیگر علاقوں سے چاول اور گندم خریدنے پر مجبور ہیں۔ دوسری جانب یہاں کے لوگ پینے کے صاف پانی سے بھی محروم ہو چکے ہیں جب کہ غریب افراد یا تو قرض لینے پر مجبور ہیں یا پھر اپنے عزیزو اقارب کے ہاں سکونت اختیار کر گئے ہیں۔
زراعت ختم ہونے سے یہاں کے لوگوں نے ’’مینگرووز‘‘ (تمر) درختوں کی بے دریغ کٹائی شروع کردی ہے اور انہیں کوئلے میں بدل کرمعمولی قیمت پر فروخت کیا جارہا ہے۔ اس طرح سمندری اتار چڑھاؤ اور طوفان کو روکنے والے مینگرووز تیزی سے ختم ہو رہے ہیں۔ ماہی گیری ختم ہونے سے معاشی سرگرمیاں شدید متاثر ہوئی ہیں اور اب مچھلیاں پکڑنے کے لیے مچھیرے ڈیلٹا کے بجائے گہرے پانیوں کا رخ کر رہے ہیں۔