ملکی کرکٹ کا 3 مارچ 2009 سے 5 مارچ 2017 تک کا سفر انتہائی اذیت ناک تھا کیونکہ اس عرصے میں پاکستان کے کھیل کے میدان انٹرنیشنل کرکٹ سے محروم ہوگئے تھے تاہم اس دوران دورہ زمبابوے ٹھنڈی ہوا کا جھونکا ہی ثابت ہوا کیونکہ اس سے کوئی بڑا بریک تھرو نہ مل سکا۔
پاکستان میں انٹرنینشل کرکٹ پر پہلا وار 3 مارچ 2009 کو کیا گیا جب دشمن نے مہمان سری لنکن ٹیم پر ایسا وار کیا کہ پاکستان میں جاری انٹرنیشنل کرکٹ کی کمر توڑ کر رکھ دی، لاہور میں ہونے والے حملے میں سری لکن ٹیم کےتمام کھلاڑی محفوظ رہے کیونکہ ڈرائیور مہر خلیل نے اپنی جان پر کھیل کر کھلاڑیوں سے بھری گاڑی کو قذافی اسٹیڈیم لے گیا۔ سری لنکن ٹیم تو بچ گئی لیکن ملکی کرکٹ لبرٹی چوک لاہور پر قتل ہوگئی۔
لبرٹی حملے کے بعد پاکستان ہوم سیریز بھی کرائے کی گراؤنڈز یعنی دوبئی اور شارجہ پر کھیلنے پر مجبور ہوگیا۔ اس ضمن میں پی سی بی حکام نے بہت کوششیں کی لیکن ناکام رہے، کبھی کسی کی منتیں تو کبھی کسی کی سماجتتیں لیکن کسی نے پاکستان میں کھیلنے کی حامی نہ بھری۔ زمبابوے کرکٹ بورڈ نے دوستی دکھائی تو تھوڑی سی امید بندھ گئی لیکن اس کے بعد پھر خاموشی چھا گئی اور پاکستان کے میدان پھر انٹرنیشنل کرکٹ سے محروم ہوگئے۔
دہشتگردی کے باعث پاکستان میں ہونے والی انٹرنیشنل کرکٹ کو اس قدر نقصان پہنچا کہ پاکستان کو اپنی کرکٹ لیگ (پی ایس ایل) کے میچ بھی ملک سے باہر کرائے کے گراؤنڈز پر کرانے پڑے۔ پی ایس ایل 2 شروع ہوا تو پی سی بی حکام نے ٹھان لی کہ فائنل کا معرکہ پاکستان میں ہی ہوگا جس کے بعد دشمن ایک بار پھر حرکت میں آگیا اور لاہور کو لہو سے نہلا دیا۔
اب یہ سفر تمام ہوا کیونکہ قوم نے اب دشمن کا ڈٹ کر مقابلہ کرنے کا عزم کرلیا ہے جس کا منہ بولتا ثبوت یہ ہے کہ پنجاب حکومت نے بھی پی ایس ایل کا فائنل لاہور میں کرانے کی منظوری دیتے ہوئے تمام تر انتظامات مکمل کرنے میں جٹ گئی ہے۔ کرکٹ اور خاص کر پاکستان کے