’’آپ کی کلاس ٹھیک نو بجے ہے۔۔۔ یعنی آپ پورے پندرہ منٹ تاخیر سے کلاس میں آئے ہیں۔۔۔؟‘‘
ایک لیکچرر نے طالب علم کو کلاس میں داخل ہوتے ہوئے دیکھ کر کہا، جس پر اس نے بتایا کہ ’سر، آج یہاں پُل کے پاس بہت زیادہ ٹریفک تھا، اس لیے آنے میں دیر ہو گئی!‘
’اور یونیورسٹی میں ’ٹی شرٹ‘ پہننے کی اجازت نہیں‘ آئندہ خیال رکھیے گا۔ استاد نے نصیحت کی اور پھر کلاس شروع ہو گئی۔۔۔ لیکن وقتاً فوقتاً استاد کو کلاس میں دھیان بانٹتے اور باتیں کرتے ہوئے بچوں کو ٹوکنا پڑتا، کبھی کوئی کچھ کھانے لگتا تو کبھی کسی کا اندازِ مجلس بے تکلفانہ ہونے لگتا۔ انہیں گاہے بگاہے کہنا پڑتا کہ وہ کلاس میں ’خلافِ نظم‘ باتوں کا خیال رکھیں، تب بھی کوئی نہ مانے تو کلاس کا تدریسی ماحول برقرار رکھنے کے لیے انہیں کلاس سے باہر بھی بھیجنا پڑ جاتا۔۔۔
بہت سے اساتذہ اپنے شاگردوں کے روبرو ’روسٹرم‘ پر ہلکے پھلکے انداز میں لیکچر دیتے ہوئے اپنی گفتگو کو بوجھل نہیں ہونے دینا چاہتے، وہ بولتے ہوئے ’بورڈ‘ پر ضروری چیزیں بھی لکھتے جاتے ہیں۔۔۔ کبھی ’پروجیکٹر‘ کی مدد سے جلتی بجھتی روشنیوں سے کچھ گوشوارے اور تصاویر وغیرہ دکھا کر بھی پڑھانے میں مدد لیتے ہیں، تو کبھی انہیں اپنے طلبہ سے کچھ پوچھنا بھی پڑتا ہے۔۔۔
سب کے چہرے کے تاثرات سے ہی اس بات کا ’اِبلاغ‘ ہو جاتا ہے، کون سا طالب علم اِس وقت بات کو سمجھ رہا ہے یا استاد کی طرف کتنا متوجہ ہے اور اس کا نظم وضبط کیسا ہے وغیرہ۔
پھر ایک بات یہ بھی ہے کہ جب آپ بہ نفس نفیس خود اٹھ کر پڑھنے کے لیے آتے ہیں، تو اس کے لیے یقیناً کچھ نہ کچھ اہتمام ہوتا ہے، منہ ہاتھ دھوتے ہیں، کپڑے تبدیل کرتے ہیں، بستہ سنبھالتے ہیں اور پھر اپنی درس گاہ کی راہ لیتے ہیں۔ یقیناً یہ تمام امور آپ کا پڑھنے کا ’موڈ‘ بنانے میں کافی معاون ہوتے ہیں۔ آپ کو پتا ہوتا ہے کہ اب مجھے کلاس لینا ہے اور آپ اِس ذہنی یک سوئی کے لیے مکمل طور پر تیار ہو جاتے ہیں، تاکہ کلاس میں جو کچھ پڑھایا جائے اسے خوب سمجھ لیں۔
لیکن برا ہو اس ’کورونا وائرس‘ کا، جس نے معمولات زندگی معطل کرنے کے ساتھ ساتھ ہمارے مستقبل کے معماروں کے اس قیمتی وقت میں بھی بہت بری طرح نقب لگائی، اسکولوں سے لے کر جامعات تک، 26 فروری سے جو تعطیلات کا سلسلہ نکلا، اب اس میں موسم گرما کی تعطیلات بھی شامل کر دی گئی ہیں۔ جس کے بعد بہت سی ’جامعات‘ نے اِن چھٹیوں کے ازالے کے لیے ’آن لائن‘ کلاسوں کا سلسلہ شروع کر دیا ہے، جس میں ان جامعات کے بنائے ہوئے اور کچھ دیگر سوفٹ وئیر کی مدد سے بہ یک وقت بہت سے طلبہ سے براہ راست مخاطب ہوا جا سکتا ہے، بہت سے پروگرام میں ویڈیو بھی موجود ہے، تاہم اکثر کلاسوں میں صرف براہ راست ’آڈیو‘ پر انحصار کیا جا رہا ہے۔ ایسے میں بہت سے اساتذہ کے لیے بڑی ’سہولت‘ ہوگئی ہے کہ وہ اپنے لیکچر ’ریکارڈ‘ کر کے طلبہ کو بھیج دیں اور سب اپنی اپنی سہولت سے اُسے سن لیں، لیکن وہ اساتذہ جو مسلسل اور یک طرفہ لیکچر دینے کے بالکل بھی عادی نہیں، اور کلاس میں ان کے پڑھانے کا طریقہ کار دو طرفہ رہتا ہے، وہ ریکارڈ کرنے کے بہ جائے براہ راست کلاس لے رہے ہیں، وہ تصوراتی طور پر اِس ’مواصلاتی‘ کلاس روم میں سب طلبہ سے بات تو کر رہے ہیں، لیکن انہیں یہ اندازہ نہیں ہو پاتا کہ کون سا طالب علم لیکچر میں کتنی دل چسپی لے رہا ہے یا ان کی بات کو بہتر سمجھ رہا ہے۔ چلیے، کلاس میں آنے کے لیے وقت سے پہلے اٹھنے، تیار ہونے سے لے کر آمدورفت کے جھمیلوں سے تو ’گلو خلاصی‘ ہوئی اور پھر ’آن لائن‘ کلاس میں کلاس کا روایتی نظم وضبط، لباس، اٹھنے بیٹھنے یا باتیں کرنے، کھانے پینے پر قدغن والا نہیں ہوتا، لیکن کم سے کم توجہ تو ایک ضروری چیز ہے۔ اس میں طالب علم ’آن لائن‘ دکھائی تو دے رہا ہے، لیکن اب اس دوران اس کی مشغولیات کیا ہیں، یہ بالکل بھی نہیں پتا، نہ ہی چہرا سامنے ہے کہ جسے دیکھ کر اندازہ لگا سکتے کہ طالب علم کلاس میں موجود ہونے کے ساتھ دراصل ’حاضر‘ کتنا ہے!
کلاس میں تو آپ دوران لیکچر موبائل فون پر انگلیاں چلاتے ہوئے طالب علم پر گرفت بھی کر سکتے ہیں، لیکن آن لائن کلاس میں یہ روک لگانا عملاً ممکن نہیں۔ یوں سمجھیے کہ ’آن لائن‘ کلاس میں زیادہ تر انحصار باشعور طالب علموں پر ہی ہے، وہ یہ جان لیں کہ اب وہ اسکول کی کلاسوں میں تو نہیں بیٹھے ہوئے، اپنا اچھا برا اور صحیح غلط وہ خود بہتر سمجھتے ہیں، اس لیے ’آن لائن‘ کلاسوں میں حتی الامکان کلاس کے نظم وضبط کو برقرار رکھیں، تاکہ وہ فقط ڈگری حاصل نہ کریں، بلکہ ساتھ میں کوئی ایسا علم اور ایسی چیزیں سیکھ کر جائیں کہ جس کا مثبت اثر ان کے اخلاق وکردار پر پڑے اور وہ آنے والی زندگی میں ان کے کام بھی آئے۔
’آن لائن‘ کلاسوں کے حوالے سے کراچی کی ایک نجی جامعہ کی طالبہ ایمان منیر کہتی ہیں کہ ’’دراصل ہم جب اپنے گھر میں ہوتے ہیں، تو ہمارا دھیان بٹتا رہتا ہے۔ یہاں دیگر مسائل بھی درپیش ہوتے ہیں جیسا کہ بجلی کی آنکھ مچولی یا انٹرنیٹ کی رفتار میں نشیب وفراز۔ یہ چیز نہ صرف ’آن لائن‘ کلاس میں مخل ہوتی ہے، بلکہ ہماری غیر حاضری لگنے کا باعث بھی بن جاتی ہے۔ دوسری طرف صبح سے شام تک مسلسل اسکرین کے سامنے وقت گزارنے سے ہماری آنکھیں شدید تھکان کا شکار ہو رہی ہیں، مسلسل کمپیوٹر پر جمے رہنے سے ہمارے سر اور جسم میں بھی درد رہنے لگا ہے۔ میرے خیال میں اس حوالے سے اساتذہ کو بھی تھوڑا سا ہمارے مسائل کو سمجھنا چاہیے، جیسے میں ’میڈیا اسٹڈیز‘ کی طالبہ ہونے کے ساتھ ساتھ ایک ’فری لانسر‘ بھی ہوں، عام دنوں میں، میں یونیورسٹی کے بعد اپنا کام کرتی تھی، لیکن اب آن لائن کلاسوں کے سبب بہت سے اساتذہ اپنی سہولت سے کلاس کا کوئی بھی وقت متعین کر دیتے ہیں، جس کی وجہ سے ہفتہ، اتوار کی چھٹیوں میں بھی اب بہت سا وقت لیپ ٹاپ کے سامنے ہی گزرنے لگا ہے، یہ طریقہ ٹھیک نہیں ہے۔‘‘
آن لائن کلاسوں سے استفادہ کرنے والی ایک اور طالبہ ردا زہرا بھی انٹرنیٹ کی خرابی کو ایک تھکا دینے والا مسئلہ قرار دیتی ہیں۔ طالب علم فہد اظہر کا خیال ہے کہ ’’کورونا وائرس کے سبب ہونے والے ’لاک ڈاؤن‘ میں ہماری پڑھائی کا کافی حرج ہو رہا تھا، اس کے ازالے کے لیے آن لائن کلاسیں شروع کی گئی ہیں، لیکن مجھے لگتا ہے کہ یہ یونیورسٹی کی عام کلاسوں کا نعم البدل نہیں ہیں۔‘‘
نئی زبانیں سیکھنے سے دل چسپی رکھنے والی ڈیفنس، کراچی کی طالبہ دینا کمال اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہتی ہیں کہ ’کورونا وائرس‘ پوری دنیا کا مسئلہ ہے اور یہ اس وقت تک ختم نہیں ہوگا، جب تک پوری دنیا کے انسان متحد نہیں ہوں گے۔ ایک سطح پر دنیا کے مشترکہ اقدام دیکھ کر مجھے احساس ہوتا ہے کہ دنیا بھر کے ممالک اگر چاہیں تو مل کر کام کر سکتے ہیں، جس میں زمین کا ماحول بہتر کرنا سرفہرست ہے۔‘
’لاک ڈاؤن‘ سے زندگی میں ہونے والی تبدیلیوں کے حوالے سے ملیر کینٹ کی رہائشی عائشہ جہانگیر کہتی ہیں ’گو کہ اتنے دن گھر میں رہتے ہوئے الجھن سی ہونے لگی ہے، لیکن ایک چیز دیکھ کر خوشی ہوئی کہ ان دنوں میں ہمارا ماحول کس قدر صاف ہو گیا ہے، فضائی آلودگی میں کمی کے باعث کراچی کا آسمان اچھا لگ رہا ہے، پرندوں کی چہچاہٹ بڑھ گئی ہے، جس سے ماحول کا خیال رکھنے کا احساس اجاگر ہوتا ہے۔ اسی طرح میل جول پر قدغن سے ہمیں یہ قدر ہونے لگی ہے کہ ہمیں سب سے اچھی طرح ملنا چاہیے اور اپنا دل صاف رکھنا چاہیے کہ پھر جانے کب ملنا نصیب ہو، ساتھ ہی گھر میں ایک دوسرے کے کاموں میں مدد کرنے کے ساتھ لاک ڈاؤن سے متاثرہ طبقے کی مدد کا جذبہ بھی ایک بہت مثبت چیز ہے۔‘
کہکشاں، کلفٹن کے رہائشی محمد ابراہیم شہر کی عام صورت حال کے حوالے سے بتاتے ہیں کہ ’مشکل کی اس گھڑی میں تمام شہری سختی سے حکومتی ہدایات پر عمل کریں گے، تو ہمیں امید ہے کہ اللہ اس مصیبت کو جلد ہی ہم سے ہٹا لے گا، ورنہ اگر ہم لایعنی ضد اور بحثوں میں پڑے رہے، تو پھر ہمارا اللہ ہی حافظ ہے۔‘‘
حبا رحمن اس لاک ڈاؤن کو مصروف زندگی میں اہل خانہ کے ساتھ زیادہ وقت گزارنے کا ایک ذریعہ بتاتی ہیں اور دعاگو ہیں کہ جلد ہی زندگی پہلے کی طرح رواں دواں ہو جائے۔ گلشن اقبال سے فروہ محسن کہتی ہیں کہ ’’لاک ڈاؤن سے معاشی صورت حال بہت خراب ہونے کا اندیشہ ہے، لیکن ’کورونا‘ کی وبا سے بچاؤ کا یہی ایک راستہ تھا۔ اس دوران مجھے شدت سے ان لوگوں کا احساس ہو رہا ہے، جن کے پاس کورونا وائرس سے تحفظ کے لیے ضروری وسائل موجود نہیں ہیں!‘‘
نوجوان سفیان عبدالمجید کہتے ہیں ’’ہمارے ملک میں کورونا وائرس کو داخل ہونے سے روکنے کی کوششیں کی گئیں، مگر افسوس، وہ کوششیں کارگر نہ ہو سکیں، نتیجتاً ہمیں اب ’لاک ڈاؤن‘ سے گزرنا پڑ رہا ہے، اس میں خطرناک بات یہ ہے کہ بیش تر شہری حفاظتی اقدام پر توجہ نہیں دے رہے!‘‘
ایک نجی جامعہ میں فائنل ائیر کی طالبہ مریم سلطان نے اس لاک ڈاؤن کو نت نئے کھانے پکانے سیکھنے میں صرف کیا، وہ روزانہ ہی اپنے باورچی خانے میں کوئی نئی ترکیب آزماتی ہیں۔ ساتھ ہی وہ اپنی مطالعے کی عادت کو بھی بحال کر رہی ہیں، اِن دنوں ’ہیری پورٹر‘ کی سیریز زیر مطالعہ ہے۔
نارتھ ناظم آباد کی رہائشی ملیحہ عامر ہمیں بتاتی ہیں کہ ’’یہ بات درست ہے کہ گھر میں بیٹھے رہنے سے بعض اوقات اکتاہٹ بھی ہونے لگتی ہے، لیکن فون وغیرہ کے ذریعے اپنوں سے گفتگو سے اس بات کا ازالہ ہو جاتا ہے۔ میں نے اس دوران گھر کے کاموں میں حصہ لینا اور ایک دوسرے کی ضرورتوں کا خیال رکھنا سیکھا ہے۔‘‘
’وی لاگنگ‘ کی دنیا میں اپنا نام بنانے کی خواہش مند ریبا کورائی کہتی ہیں کہ انہوں نے ’لاک ڈاؤن‘ کے دوران جو افراتفری دیکھی، زندگی میں پہلے کبھی ایسی صورت حال نہیں دیکھی۔ نوجوان احد حاکم کو لاک ڈاؤن کے دوران اسپتالوں میں ڈاکٹروں کے لیے ضروری سامان کی مسلسل فراہمی کی فکر ہے، وہ کہتے ہیں کہ حکومت کو اس حوالے سے خصوصی توجہ دینا چاہیے۔ یمنیٰ مسعود نے بندشوں کے حوالے سے اپنے تجربات ہم سے یوں بانٹے: ’’میں گھر پر زیادہ دیر رہنے کی عادی نہیں تھی، لیکن شہر میں لاک ڈاؤن کے دوران نہ صرف احتیاطی تدابیر کے طور پر میں گھر میں بیٹھی ہوئی ہوں، بلکہ مجھے اس تجربے سے اللہ کی بہت سی نعمتوں کی قدر بھی آئی ہے۔‘
دوسری طرف لاک ڈاؤن کے دوران یوں تو ’آن لائن‘ کاموں کی طرف توجہ دلائی جا رہی ہے، جو ان دنوں وقت کا تقاضا بھی معلوم ہوتا ہے، لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ ان دنوں کراچی کے متوسط طبقے کے پڑھے لکھے بے روزگار نوجوانوں کی ایک بہت بڑی تعداد ’آن لائن‘ اسکوٹر اور ٹیکسیاں چلانے سے وابستہ ہے، ظاہر ہے سماج میں اپنی سفید پوشی کا بھرم رکھے ہوئے یہ افراد بھی عام رکشے ٹیکسی چلانے والوں کی طرح ’یومیہ اجرت‘ والے ہی شمار کیے جائیں گے۔ یہ روز کنواں کھودتے اور روز پانی پیتے ہیں، لیکن ’لاک ڈاؤن‘ نے انہیں ایک نئی آزمائش سے دوچار کر دیا ہے۔ یہی صورت حال مختلف ہوٹلوں اور ریستورانوں سے گھروں میں کھانا فراہم کرنے والی ایک معروف ’سروس‘ کا بھی ہے، اس سے جڑے ہوئے نوجوان بھی ’لاک ڈاؤن‘ کے سبب اس وقت شدید اذیت سے دوچار ہیں۔
’فرئیر‘ کے علاقے کے رہائشی فرقان اس حوالے سے کہتے ہیں کہ ’’لاک ڈاؤن میں یومیہ اجرت کے بعد اب تنخواہ داروں کے لیے مسائل شروع ہو رہے ہیِں، کیوں کہ کوئی بھی اپنے ملازمین کو گھر بٹھا کر تنخواہ نہیں دے گا۔۔۔ ظاہر ہے تاجر حضرات اپنے خسارے پورے کرنے کے لیے سب سے پہلے ملازمین پر ہی چھُری چلائیں گے، اس لیے میری تمام شہریوں سے اپیل ہے کہ وہ نقل وحرکت محدود کر دیں، تاکہ جلد ازجلد معمولات زندگی بحال ہو سکیں، کیوں کہ اگر آپ نے بات نہ مانی، تو آپ کی اس ناسمجھی کی سزا پورے سماج کو معاشی مشکلات کی صورت میں ملے گی۔۔۔!‘‘
گھریلو صنعت ناگزیر ضرورت بن چکی ہے۔۔۔!
گھریلو صنعتوں کا تصور کوئی نیا نہیں ہے، ہمارے ہاں اکثر خواتین خانہ اپنے گھروں میں مختلف کاموں سے جُڑ کر اپنی زندگی کا پہیا چلاتی ہیں۔ کچھ اپنے اِن رپوں کو شوہر کی تنخواہ میں ملا کر گھر بھر کی زندگیوں کو بہتر کرنا چاہتی ہیں۔۔۔ بعض وجوہات کی بنا پر کچھ مرد حضرات بھی اپنے گھروں میں بیٹھ کر مختلف ہنر آزماتے ہیں اور اپنے گھر کے اخراجات پورے کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔۔۔ کورونا وائرس کے سبب پیدا ہونے والی صورت حال میں جب اشیائے ضروریہ کے سوا تمام کاروبار معطل کیے جا چکے ہیں، اور لوگوں کو سختی سے ہدایت کی گئی ہے کہ وہ احتیاطی تدابیر کے طور پر اپنے گھروں سے باہر نہ نکلیں، ایسے میں نچلے اور متوسط طبقے کی معاشی مشکلات بہت تیزی سے معاشی بدحالی کی طرف بڑھ رہی ہیں، امداد دینا، راشن کی تقسیم اور کھانے بٹوانا یقیناً ایک عارضی عمل ہے، پھر کراچی شہر کے بہت بڑی تعداد میں ایسے سفید پوش ہیں، جن کی غیرت دست دراز کرنا گوارا نہیں کر رہی ہے اور وہ اپنے بند گھروں میں بہت بری صورت حال سے دوچار ہیں۔۔۔! ایسے میں یہ ناگزیر ہو گیا ہے کہ ’گھریلو صنعتوں‘ کی سمت فوری طور پر بھرپور توجہ دی جائے اور مختلف صنعتیں اور فیکٹریاں اپنے کام چھوٹے پیمانے پر کرنے کے لیے (جہاں تک ممکن ہو) ملازمین کو گھروں پر سہولت فراہم کریں، یہ امر ایک طرف ان سفید پوشوں کی زندگی کا پہیا رواں رکھے گا، تو وہیں مجموعی طور پر ملک کی معاشی بندشوں میں کسی حد تک روانی لانے کا باعث بھی ہوگا۔