کیا آپ آج کے جدید دور میں یہ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ اب بھی دنیا کی تمام آسائشوں سے دور، جدت سے پرے پتھریلے پہاڑوں کے درمیان کچھ لوگ بہت ہنسی خوشی اپنی مرضی سے رہتے ہوں گے۔ یہ پڑھ کر آپ بھی شاید حیرت زدہ ہو جائیں کہ اومان کی دور دراز کی پہاڑیوں میں ایک قبیلہ 500 سال سے آباد ہے۔
مسقط کی ساحلی پٹی سے شمال مغرب کی طرف 195 کلو میٹر کے فاصلے پر اومان کے گرد آلود میدانوں کے آخری سرے پر جبل الاخدار نامی اونچے پہاڑوں کا سلسلہ ہے جو گرین ماونٹین کے نام سے جانا جاتا ہے۔
بھول بھلیوں اور گہری گھاٹیوں کا یہ سلسلہ ملک کا دور دراز ترین علاقہ کہلاتا ہے۔ یہاں تک جانے کے لیے کوئی سڑک یا پختہ راستہ نہیں ہے۔
پیدل یا خچروں کے ذریعے مسافت طے کر نے کے بعد پہاڑوں پر مزید 20 کلو میٹر چڑھائی کے بعد چند گھر نظر آتے ہیں۔ ابتداء میں یہ گھر پتھریلے پہاڑوں کو کاٹ کر بنائے گئے تھے۔ بعد میں مٹی اور گاروں سے بھی گھر بنائے گئے۔
چند گھروں پر مشتمل اس گاؤں کا نام السوگارا ہے۔ یہ جدید دنیا سے دور ایک پچھڑا ہوا گاؤں ہے۔
کہا جاتا ہے کہ یہ گاؤں 500 سال سے اس جگہ آباد ہے۔ یہاں کے رہائشیوں کے مطابق یہاں رہنا بہت خوبصورت تجربہ ہے۔
اس گاؤں کے باسیوں کا کہنا ہے کہ وہ یہاں بہت خوش ہیں اور کیوں خوش نہ ہوں۔
پرانے زمانے سے لے کر اب تک یہاں کوئی خاص تبدیلی نہیں آئی ماسوائے اس کے کہ اب یہاں گاڑیاں پہنچ سکتی ہیں اور ایک الیکٹرک پُلٰی لگ چکی ہے۔ پانی کی فراہمی کے لیے یہاں 40 کلو میٹر طویل نہر بھی بنائی گئی، ضرورت کے سامان کو اوپر خچروں اور گدھوں پر لاد کر پہنچایا جاتا ہے۔
2005 تک یہ پہاڑیاں اومانی فوج کے زیر انتظام تھیں اور اس علاقے تک رسائی ممنوعہ تھی۔
مقامی لوگوں کے مطابق ان کے آباو اجداد یہاں 500 قبل آکر آباد ہوئے تھے۔ اس جگہ رہنے والوں کی تعداد اب گھٹ کر صرف چند خاندانوں تک رہ گئی ہے۔ یہ وہ لوگ ہیں جو مصروف شہروں میں رہنا نہیں چاہتے اور سب سے بڑھ کر وہ اپنے آبائی گھروں کی محبت کے وجہ سے یہ جگہ تمام مشکلات کے باوجود نہیں چھوڑنا چاہتے۔