کیلیفورنیا:
امریکا میں مستقبل قریب میں ہونے والی افریقی تجارتی کانفرنس میں افریقی ممالک کے ہی مندوبین کو امریکی ویزہ دینے سے انکار کردیا گیا۔
کیلیفورنیا میں منعقدہ افریقن گلوبل اکنامک اینڈ ڈویلپمنٹ سمٹ کے منتظمین نے انکشاف کیا ہے کہ تقریب میں مختلف افریقی ممالک کے 60 افراد کو مدعو کیا گیا تھا اور ان میں سے کسی ایک کو بھی ویزہ نہیں دیا گیا۔
یہ سہ روزہ کانفرنس یونیورسٹی آف سدرن کیلیفورنیا میں منعقد ہورہی ہے جو ہرسال اسی عنوان سے مختلف امریکی شہروں میں بلائی جاتی ہے۔ کانفرنس سے وابستہ خاتون منتظم میری فلاورز نے بتایا کہ کانفرنس میں افریقی تاجر امریکی سرمایہ کاروں سے ملتے ہیں جس کے لیے 60 افراد کو آنا تھا لیکن ان میں سے ایک بھی شخص کو امریکی ویزہ جاری نہیں کیا گیا ہے۔
لاس اینجلس میں ہونے والی اس تقریب میں شرکا کو ویزے سے انکار پر امریکی امیگریشن اور ویزہ پالیسی پر نئے سوالات اُٹھ گئے ہیں۔ میری فلاور کے مطابق کم ازکم 60 سے 100 افراد کانفرنس میں شریک نہیں ہوسکیں گے کیونکہ تمام مندوبین کو ویزہ نہیں دیا گیا ہے۔
فلاور نے کہا کہ انہیں نہیں معلوم کہ افریقیوں کو ویزہ جاری نہ کرنے کے پیچھے امریکی انتظامیہ ہے یا ٹرمپ کی سخت گیر ویزہ پالیسیاں، لیکن ایک عرصے سے ان افریقیوں سے امتیازی رویہ برقرار رکھا گیا ہے اگرچہ اس سے امریکی اور افریقی باہمی تجارت کو شدید دھچکا پہنچے گا۔
کانفرنس انتظامیہ نے واضح کیا کہ صومالیہ، سوڈان اور لیبیا پرویزہ پابندیوں کی وجہ سے ان ممالک کے افراد نے ویزہ درخواست نہیں دی تھی لیکن نائیجیریا، کیمرون، انگولا، ایتھیوپیا، سیرا لیون، گنی، گھانا، اور جنوبی افریقا کے مندوبین کو بھی امریکا میں داخلے کی اجازت نہ مل سکی۔
کانفرنس کا یہ انوکھا واقعہ امریکی صدر ٹرمپ کی زیرِ نگرانی نئے سخت گیر قوانین کی ایک جھلک ہے جس سے اب خود امریکی سرمایہ کاروں کو بھی پریشانی کا سامنا کرنا پڑرہا ہے۔ اس سے قبل پوری دنیا کے کئی ڈاکٹروں، موسیقاروں اور ہنرمند افراد کو امریکا میں داخل نہیں ہونے دیا گیا تھا۔