کراچی ( عبدالستار مندرہ)آرٹس کونسل آف پاکستان کراچی میں جاری “ادب فیسٹیول” کے تیسرے روز “ا ±ردو اور ہندی میں مسلمانوں کا بدلتا چہرہ، سیاست اور معاشرے میں سنیما اور اس کا اثر”(THE CHANGING FACE OF MUSLIMS IN URDU AND HINDI)،CINEMA AND ITS IMPACT ON POLITICS AND SOCIETY کے موضوع پر سیشن کا انعقاد۔سیشن میں معروف اداکارہ بشریٰ انصاری،نادیہ چشتی،خسرو ممتاز،سلطان ارشد،جاوید جبار نے شرکت کی۔اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے بشریٰ انصاری نے کہاکہ پہلے کا مسلمان شریف اور نمازی ہوتا تھا مگر آج شدت پسند لوگوں کا بدلتا چہرہ بہت خوفناک ہے، اداکاروں کو کبھی سیاست میں نہیں جانا چاہیے البتہ آس پاس کی آگاہی ضروری ہے، انہوں نے کہاکہ مہدی حسن کو ہندوستان میں بھگوان مانا جاتا ہے، انڈیا میں نصرت فتح علی خان کی تصویر لوگ سجدہ کرتے ہیں، ہمارے ملک میں لوگوں کو آگے بڑھنے کے مواقع نہیں دیئے جاتے شاید اس کی ایک بڑی وجہ یہاں پر میوزک کی تعلیم سے دوری ہے، عاطف اسلم کی مثال آپ کے سامنے ہے، ہمارے پاکستانیوں گلوکاروں نے ہندوستان میں کامیابی کے جھنڈے گاڑے، اس موقع پر خسرو ممتاز نے کہاکہ ہمیں پاکستان میں چرچ، مندر اور غیرمذاہب کی عبادات گاہوں کی تحفظات دینے کے بارے میں سوچنا ہوگا، ہم نے اپنی تاریخ کھو دی ہے ،ا ±ردو ہمیں ورثے میں ملی مگر بدقسمتی سے ہم نے اس کے ساتھ اچھا سلوک نہیں کیا، سلطان ارشدنے کہاکہ ہم کہتے ہیں سنیما کم ہیں لیکن ہم یہ نہیں دیکھتے کہ فلمیں مزید کم ہیں، نادیہ چشتی نے کہاکہ طلعت حسین کا “بندش” میں کردار کی مثال نہیں ملتی جبکہ بشریٰ انصاری کا شہرئہ آفاق کردار بجلی آج بھی میرے ذہن میں تازہ ہے، جاوید جبار نے کہاکہ ہم شدت پسند قوم نہیں ہیں اگر اقلیتی برادری کے ساتھ کوئی واقعہ رونما ہوتا ہے تو پوری قوم اس کی مذمت کرتی ہے۔
آرٹس کونسل آف پاکستان کراچی میں تین روزہ ادبی میلہ جاری،کشور ناہید اور افتخار عارف کی شاعری نے ادب فیسٹیول میں سماں باندھ دیا، شاعری پر مبنی منعقدہ اجلاس میں کشور ناہید اور افتخار عارف نے اپنی زندگی کے نشیب و فراز حاضرین کے گوش گزار کردیئے، اجلاس کی نظامت صدر آرٹس کونسل محمد احمد شاہ نے کی۔اجلاس سے گفتگو کرتے ہوئے معروف ادیب و شاعر افتخار عارف نے کہاکہ ہجرت صرف ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل ہونے کا نام نہیں ہے، نظریے کا فرق بھی ہجرت ہے۔ میرے جیسے نوجوان جو کسی جاگیردار کے بیٹے نہیں ہوتے انہیں اپنے بازوئے دم پر یقین رکھنا پڑتا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ میرے نانا نے میری پرورش کی اور مجھے تعلیم کی راہ پر گامزن کیا،میں لکھنو سے آیا اور ریڈیو سے اپنا سفر شروع کیا لیکن کبھی کسی قسم کے تعصب کا سامنا نہیں کرنا پڑا، نورجہاں میری شاعری کو پسند کرتی تھیں،میں نے اپنی غزل کبھی کسی کے نام نہیں کی، جن سے تعلقِ خاطر ہو انہیں رسوا نہیں کرتے یہ شائستہ طریقہ نہیں ہے،جاہل وہ نہیں جسے علم نہیں ہوتا بلکہ جو جہل پر قائم رہے وہ ہوتا ہے، انہوں نے کہاکہ حسن عابدی اور پروفیسر عبدالسلام کو حکومتوں اور لوگوں نے وہ عزت نہیں دی جن کے وہ حقدار تھے،معروف ادیبہ وشاعرہ کشور ناہید نے کہاکہ پاکستان اور ہندوستان کی تقسیم کے بعد دونوں طرف جو مظالم ڈھائے گئے آج بھی دل پر نقش ہے۔ بچپن میں زہرا نگاہ سے متاثر ہوئی اور اشعار لکھنا شروع کئے، یونیورسٹی میں مقررہ بھی رہی اور مشاعرے بھی پڑھتی تھی۔ میں پاکستان کو سمجھنا چاہتی تھی اسی لیے شاعرہ کی حیثیت سے شہرت پانے کے بعد اکانومسٹ میں ایم اے کیا۔ ازدواجی زندگی پر بات کرتے ہوئے کہاکہ اکٹھے رہنے اور اکٹھے ملنے کا مطلب اکٹھے سوچنا نہیں ہوتا۔ لوگ کہتے تھے شاعری چھوڑ دو مگر میرا دل کہتا تھا جاری رکھو، 19 افراد کا کھانا بناتی اور شاعری بھی کرتی تھی، اجلاس میں افتخار عارف نے اپنی مشہورِ زمانہ نظم ©’یہ کون بول رہا ہے خدا کے لہجے میں’ سمیت کئی غزلوں کے اشعار پیش کیے جبکہ کشور ناہید نے اپنی شہرئہ آفاق نظم ©’ہم گنہگار عورتیں’ حاضرین کے اصرار پر گوش گزار کی۔
آرٹس کونسل آف پاکستان میں “ادب فیسٹیول” کے آخری روز “شیری رحمن کے ساتھ ایک اجلاس” سے خطاب کرتے ہوئے شیری رحمن نے کہاکہ ہم نے آزادی کئی قربانیاں دے کر حاصل کی ہے کسی نے ہمیں طشتری میں رکھ کر نہیں دی،میں گلیوں کی سیاست سے ہی میدان میں آئی ہوں ،ضیاالحق کے دور میں ہم آرڈیننس کے خلاف باہر نکلے، بے نظیر کی شہادت کو یاد کرتے ہوئے شیری رحمن نے کہاکہ بے نظیر بھٹو کی شہادت کے لمحات کبھی نہیں بھول سکتی، جس وقت ان پر قاتلانہ حملہ ہوا ہم ہسپتا ل پہنچے تو دیکھا کہ بی بی شدید زخمی اور ان کی گاڑی خون سے بھری ہوئی تھی،اس وقت ہمیں بس یہ لگ رہا تھا کہ بی بی ٹھیک ہوجائیں گی، ہماری سیاست میں خواتین کے پہننے اوڑھنے کو خبر بنا دیا جاتا ہے، مزاحمت اور بے عزتی کا سامنا ہر مرحلے پر ہوتا ہے اور یہ جنسی بنیادوں پر کیا جائے تو اور بھی غلط عمل ہے ،انہوں نے کہاکہ اس وقت پاکستان میں میڈیا پریشر میںکام کررہا ہے،مشکلات زیادہ اور وسائل کم ہیں، مجھے اچھا لگا کہ کراچی میں ادبی فیسٹیول ہورہے ہیں ،نیاٹیلنٹ سامنے آرہا ہے، یہ ایونٹ جمہوری معاشروں کی عکاسی کرتے ہیں۔ بڑی عجیب بات ہے کہ صوبے کو حق نہیں دیا جارہا ،پاکستان کی تاریخ میں پہلے ایسا نہیں ہوا کہ ایک صوبے کے حقوق سلب کئے جارہے ہوں،ارکان پارلیمنٹ کے الاﺅنس بڑھانے کے بل پر پیپلزپارٹی نے مخالفت کی ،اپنے مراعات بڑھائیں اور غریب کے منہ سے نوالہ چھینیں یہ کہاں کا انصاف ہے، اسلام آباد میں لوگ بچوں کی فیس نہیں دے پارہے ،اپنے بچوں کو اسکولوں سے نکلوا رہے ہیں، پاکستان میں بحران اورمہنگائی کا سونامی ہے خیالی پلاﺅ تو شیخ چلی بھی بناتا ہے ۔