ذیشان محمد بیگ
زبردست معرکے اور لڑائی کے بعد بالآخر قلعہ فتح ہوگیا۔ دشمن پر قابو پالینے کے بعد عموماً فاتح اپنی جیت کا جشن مغلوب ہو جانے والوں کے قتل عام، ان کے مال و املاک کی لوٹ مار، خواتین کی بے حرمتی اور جنگی قیدیوں کے ساتھ ناروا اور ظلم و ستم کے سلوک کرکے مناتے ہیں مگر ان مفتوحین کے ساتھ تو ایسا کچھ بھی نہیں ہو رہا تھا۔
قلعہ کے شکست خوردہ باسی یہ حیران کن منظر اپنی آنکھوں سے دیکھ لینے کے باوجود اس پر یقین کرلینے کے معاملے پر شکوک و شبہات کا شکار تھے کیونکہ خود انہوں نے ماضی میں آج کے فاتح پر ایک آدھ بار فتح حاصل کرنے کے بعد اسی طرز عمل کا مظاہرہ کیا تھا جو فاتحین کا خاصہ ہوتا ہے۔ اب وہ خود ہار جانے کے بعد مکافات عمل کا نشانہ بننے کو تیار تھے لیکن ان کے ساتھ تو ایسا کچھ بھی نہیں ہورہا تھا اور اس وقت تو انہیں اپنے کانوں پر یقین ہی نہ آیا جب انہوں نے فاتح افواج کی جانب سے یہ اعلان سنا کہ قلعہ کے تمام تر محصورین اور جنگی قیدیوں کو فی الفور رہا کیا جاتا ہے کیونکہ اسی روز ایک نامور مسلمان درویش کا یوم پیدائش تھا، جس کی خوشی میں یہ آزادی دی جارہی ہے۔
اس بہترین سلوک کے مظاہرے پر شکست خوردہ انگریزی فوج کا ایک نوجوان افسر ازحد خوش ہوا اور اس نے اظہار تشکر کے طور پر فاتح فوج کے سپاہ سالار اور حکمران ٹیپو سلطان کو ایک زمرد تحفے کے طور پر پیش کیا جو اس وقت اس کے پاس موجود تھا۔ ٹیپو سلطان نے اس نوجوان انگریز فوجی افسر کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ ’’تحفے کے جواب میں جوابی تحفہ دینا بھی ضروری ہوتا ہے۔‘‘
اس کے ساتھ ہی ٹیپو سلطان نے اس نوجوان انگریز افسر کو ایک تھیلی تھما دی جس میں قیمتی پتھر موجود تھے اور اس کے علاوہ ایک سو سونے کی اشرفیاں بھی انعام کے طور پر اس کے حوالے کیں۔ اس کے بعد ٹیپو سلطان نے اس انگریز افسر سے پوچھا کہ کیا وہ اس کی فوج میں خدمات سرانجام دینا پسند کرے گا؟ اس انگریز افسر نے جواب دیا کہ وہ اپنے ملک کے ساتھ غداری نہیں کرسکتا۔ ٹیپو سلطان اس کے اس جواب سے ازحد خوش ہوا اور اپنی انگلی سے ایک قیمتی انگوٹھی اتارتے ہوئے اس کے حوالے کردی۔ یہ اس نوجوان انگریز افسر کے لیے ایک اور تحفہ تھا۔
یہ کردار تھا اس مسلمان حکمران کا جس کو اس کے دشمن بھی حریت پسندی اور بہادری کے باوصف خراج تحسین پیش کرنے پرمجبور ہوگئے۔ اس نے ناصرف اپنے وطن پر غاصبانہ قبضہ کرنے کی کوشش کرنے والی انگریز افواج کو شکست دینے کے باوجود ان کے ساتھ حسن سلوک روا رکھا بلکہ نوجوان انگریز فوجی افسر کے اپنے ملک کے ساتھ غداری نہ کرنے کے فیصلے کو بنظر تحسین دیکھتے ہوئے اسے اس فیصلے پر مزید انعام و اکرام سے نوازا۔ حالات کی ستم ظریفی دیکھئے کہ اسی ٹیپو سلطان کو انگریزوں کی جانب سے ورغلائے گئے غداروں کی مدد سے شہید کیا گیا۔
اپنے وطن کو اغیار کے چنگل سے بچانے اور جرت و بہادری کے نشان اس بطل جلیل، جسے حریت و آزادی کے استعمارے کا عظیم الشان مقام حاصل ہے کے خاندانی حالات، اس کے دادا فتح محمد سے قبل جنہوں نے اس خاندان کو شہرت عطا کی، بڑی حد تک پردۂ اخفا میں ہیں لیکن بعض روایات سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ ٹیپو سلطان قریش مکہ کی نسل سے تھا اور اس کے آباؤ اجداد غالباً سولہویں صدی کے اواخر میں شمال مغرب کے خشکی کے روایتی راستے سے ہندوستان وارد ہوئے۔
اس خاندان کا پہلا فرد جس کے متعلق کچھ روایات محفوظ ہیں، شیخ ولی محمد ہے جو بچباپور کے فرماں روا محمد عادل شاہ (1626ء۔ 1625ء) کے عہد میں اپنے بیٹے محمد علی کے ساتھ دہلی سے گلبرگہ آیا۔ وہ ایک دین دار آدمی تھا۔ وہ شاہ صدر الدین حسینی المعروف بہ گیسو دراز کی درگاہ سے منسلک ہوگیا۔ درگاہ کے ایک خادم کی بیٹی سے انہوں نے اپنے بیٹے محمد علی کی شادی کردی۔ ان کے انتقال کے بعد محمد علی بچباپور چلاگیا۔ جہاں اس کے نسبی بھائی علی عادل شاہ ثانی (1657ء۔ 1672ء) کی فوج میں ملازم تھے۔
مغلوں اور بیجاپور یوں کے درمیان جنگ میں اس کے ساتوں نسبی بھائی کام آئے اور اس سانحے کے بعد محمد علی اپنے اہل و عیال کے ساتھ کولار چلاگیا۔ کولار کے حاکم نے اسے اپنی جائیداد کا مہتمم مقرر کردیا۔ محمدعلی کے بیٹے جب جوان ہوئے تو انہوںنے سپہ گری کو ترجیح دی۔ ٹیپو سلطان کے دادافتح محمد ‘ انہیںمحمد علی کے بیٹے تھے۔
فتح محمد جو مختلف ریاستوں کے نوابین کی افواج میں اعلیٰ عہدوں پر فائز رہے‘ کی وفات کے وقت ان کے بیٹے حیدر علی کی عمر لگ بھگ پانچ برس تھی۔ یہی حیدر علی ٹیپو سلطان کے والدتھے۔ حیدر علی اپنی قابلیت اور بہادری کے سبب 1761ء میں میسور کے فرماں روا بننے میں کامیاب ہوئے اور آخر کار 1778ء وہ ایک وسیع سلطنت قائم کرنے میں کامیاب ہو گئے۔
ٹیپوسلطان نے حیدر علی کی دوسری بیگم کے بطن سے جنم لیا۔ ان کی پیدائش سے قبل حیدر علی اور ان کی ملکہ، ارکاٹ میں ایک مشہور ولی اللہ حضرت ٹیپو مستان اولیا کی درگاہ پر حاضر ہوئے اور دعا کی۔ ان کی دعا قبول ہوئی اور 20 ذی الحجہ 1163ء بمطابق 10نومبر 1750ء کو جمعہ کے دن ٹیپو سلطان پیدا ہوئے‘ جن کا نام اس ولی ا للہ کی نسبت سے رکھا گیا۔ ان کا دوسرا نام فتح علی بھی تھا جو ان کے دادا فتح محمد کے نام پر رکھا گیاتھا۔
1707ء میں اور نگزیب کی وفات کے بعد مغلیہ سلطنت کے ساتھ ساتھ ہندوستان کا زوال بھی شروع ہو گیا۔ یہ وہ دور تھا جب یورپ تاریکی سے نکل کر روشنی میںآرہا تھا۔ 1744ء سے 1763ء تک تقریباً بیس سال کر ناٹک کی سرزمین پر انگریزوں اور فرانسیسیوں کی لڑائیاں ہوتی رہیں۔جن میں بالآخر انگریزوں کو فتح حاصل ہوئی اور وہ مشرق ہند کی طرح جنوبی ہند میں بھی سب سے بڑے غیرملکی و آباد کار بن گئے بلکہ شمالی ہند میں 1764ء کی جنگ جیتنے کے بعد انگریز ملک کی سب سے بڑی طاقت بننے لگے۔ اب اگر ہندوستان میں برطانوی سامراج کے قیام میں کوئی رکاوٹ تھی تو صرف جنوب کی طرف سے‘ جہاںمغلیہ سلطنت کے زوال کے بعد تین قوتیں ابھر رہی تھیں۔ ایک مرہٹہ‘ دوسری نظام حیدر آباد دکن اور تیسری میسور کا نواب حیدر علی۔ مستقبل کے لئے ملکی سطح پر انگریزوں نے اگر کسی کو حریف تصور کیا تو وہ نواب حیدر علی ہی تھا اور اسی کی جرأت و فراست نے برطانیوی سامراج کی ریشہ دوانیوں کا مقابلہ کیا۔
حیدر علی ایک باہمت اور حوصلہ مند مسلمان تھا۔ اس نے جنگی فتوحات سے انتظامی اصلاحات تک بالعموم اصولوں پر اور شرعی حدود میں کام کیا۔ اگرچہ وہ تعلیم یافتہ نہیں تھا پھر بھی اس نے اٹھارہویں صدی کے ایک نسبتاً پس ماندہ زمانہ اور پر آشوب دور میں اپنے خلف اکبر ا ور ولی عہد ابوالفتح فتح علی ٹیپو سلطان کی تعلیم و تربیت کا پختہ انتظام کسی مغل شہزادے سے بھی بڑھ کر کیا۔ عربی‘ فارسی‘ سنسکرت‘ انگریزی‘ دینیات اور حربیات کی تعلیم ٹیپو نے اپنے وقت کے بہترین اساتذہ سے حاصل کی اور بہت کم عمری میں ایک باشعور ‘ باکردار ‘ جری‘ قوی‘ مدبر و منظم اور ہر فن مولا صالح نوجوان بن کر میدان عمل میں آیا۔ وہ نہ صرف اپنے بہادر باپ کا دست و بازو ثابت ہوا بلکہ اس کے خوابوں کی تعبیر بن گیا۔ اپنے عہد کے حالات میں ٹیپو نے جو کارنامے سرانجام دیئے ان کے لحاظ سے اس کا موازانہ ایک طرف مشرق میں سلطان صلاح الدین ایوبی تو دوسری جانب مغرب میںنپولین بوناپارٹ کے ساتھ کیا جا سکتا ہے۔ ان میں ایوبی کا تعلق دور قدیم اور نپولین کا دور جدید سے ہے۔
ٹیپو حلم و حیا‘ عفت و عصمت‘ غیرت و حمیت ‘ شجاعت و صلاحیت‘ رحم و کرم اور محنت و مشقت کا پیکر تھا۔ اس کی قابلت کا ثبوت اس کے مکاتب ہیں جو اپنی جودت وکثرت کے لحا ظ سے رقعات عالمگیری سے کم نہیں۔ اس کی ریاضت اور عبادت کا عالم یہ تھا کہ نو تعمیر مسجد اعلیٰ کی افتتاحی نماز کی امامت صاحب ترتیب ہونے(یعنی کبھی کوئی نماز قضا نہ کرنے) کے سبب اس نے ہی کی۔ اس کی جنگی مہارت کا لوہا اس کے دشمن بھی مانتے تھے۔ وہ مجاہد اور مرد میدان تھا۔ ٹیپو جو وجاہت اور رعب ووقار کا ایک مجسمہ تھا‘ اپنے حسن تدبیر کے باعث ایک مدت تک ناقابل شکست تصور کیا جاتا رہا۔ کم عمری ہی سے وہ اپنے والد حیدر علی کی فوج کا سب سے نامور جنرل سمجھا جانے لگا۔ اس کی مہمات پرلوگ معجزات کا گمان کرنے لگے تھے۔
بنگال میں آسانی سے کامیابیاں حاصل کرنے کے بعد انگریز نے پورے ہندوستان کو نرم چارہ سمجھ لیا تھا۔ 1766ء میں انہوںنے نظام حیدر آباد کے ساتھ حیدر علی کے خلاف معاہدہ کر لیا۔ آرکاٹ کے نواب مرہٹوں سے حیدر علی کے کچھ جھگڑے پہلے سے چل رہے تھے۔ اس طرح حیدر علی کو جنوب میں اپنے تمام ملکی و غیر ملکی دشمنوں کے ساتھا مقابلہ کرنا پڑا۔ اس وقت ٹیپو سلطان کی عمر محض سولہ برس تھی مگر وہ میدان جنگ میں ایک دستہ کا کمان دار بنایا گیا۔ 1767ء سے 1769ء تک انگریزوں کے ساتھ ریاست میسور کی پہلی جنگ ہوئی جس میں ٹیپو نے کارہائے نمایاں انجام دیئے اور دنیا کو معلوم ہوا کہ میسور کی کچھار سے ایک نیا شیر ہندوستان پرحملہ آور ہونے والوں سے مقابلہ کرنے کے لئے میدان میں آ گیا ہے۔ اس جنگ میں اول تو حیدر علی نے اپنی تدبیروں سے جنگ کے وقت انگریزوں کو تقریبا تنہا کر دیا دوسرے وہ انہیں شکست دیتا اور رگیدتا ہوا مدراس میں ان کے قلعہ کے دروازے تک لے گیا۔ جہاں پہنچ کر انگریزوں نے نہات ذلت آمیز شکست تسلیم کر لی اور میسور کے ساتھ اس کی شرائط پر صلح کرنے کے لئے مجبور ہوئے مگر اپنی مکارانہ ذہنیت سے باز نہ آئے۔
1782ء میں انگریزوں کے ساتھ دوسری جنگ میں حیدر علی نے انہیں شکست فاش دی اور انگریز فوج کے کمانڈر کرنل بریتھ ویٹ کو قید کر لیا۔ اس کے بعد ہی حیدر علی کی وقات ہو گئی اور ولی عہد ٹیپو سلطان اس کا جانشین قرار پایا۔ ٹیپو نے اعتماد کے ساتھ جنگ جاری رکھی مگر اپنی صلح پسند طبیعت کے سبب مزید خون ریزی اور غارت گری روکنے کیلئے سلطان نے 1784ء میں انگریزوں کے ساتھ معاہدہ بنگلور کے صلح نامہ پر دستخط کر دیئے۔
ایسٹ انڈیا کمپنی کے انگریزوں کے ساتھ جنگ میں ٹیپو سلطان کی مسلسل فتوحات کا سلطنت انگلستان پر اتنا زبردست اثر پڑا کہ برطانوی وزیراعظم پٹ نے برطانوی پارلیمنٹ کا پہلا انڈیا ایکٹ 1784ء میں منظور کر دیا جس میں ہندوستانیوں کے ساتھ امن اور انگریزوں کے مقبوضات روک دینے کی آئندہ پالیسی کا اعلان کیا گیا۔ لیکن یہ ایکٹ برطانوی مکاری اور دغا بازی کا ایک اور شاہکار ثابت ہوا اور معلوم ہوا کہ اس کا واحد مقصد شیر میسور کو غافل کر کے ہندوستان کی آزادی پر کاری ضرب لگانا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ انگریزوں نے ا یک بار پھر مرہٹوں اور نظام کو اپنے ساتھ ملا کر ریاست میسور کے خلاف متحدہ محاذ بنا لیا۔ یہ واقعہ 1790ء میں پیش آیا۔ ٹپیو نے خطرے کی سنگینی کو اچھی طرح بھانپ لیا اور پہلے ہی سمجھ لیا تھا کہ اس کے ساتھ انگریزوں کی ہر صلح ایک جنگ کا پیش خیمہ ہے جس کا مقصد تازہ دم ہو کر ریاست میسور کو مٹانے کے لئے فوج کشی ہے۔ اس لئے کہ اب برطانوی عزائم کی راہ میں وہی ایک چٹان باقی رہ گئی ہے جبکہ نظام حیدر آباد دکن اور مرہٹے ملک کے مفاد سے بالکل غافل ہو کر صرف اپنے اقتدار کو بچانے میں لگے ہوئے ہیں۔ لہٰذا ایک دور بین مدبر کی طرح اس نے 1784ء میں ہی خلافت عثمانیہ سے مدد طلب کر نے کے لئے اپنا ایک سفیر استنبول بھیج دیا تھا۔ اس کے بعد 1787ء کے بعد اس نے شاہ فرانس سے بھی تعاون حاصل کرنے کے لئے سفارت روانہ کی۔
ٹیپو ہر معاملہ میں دفاعی کے بجائے اقدامی انداز اختیار کرتا تھا اور اپنی سلطنت کی سرحدوں کی حفاظت کرنے کے ساتھ ساتھ گردو پیش کے منڈلاتے ہوئے خطرات کا بھی سدباب کرنے کے لئے آمادہ رہتا تھا۔ چنانچہ جب ٹراونکور کے راجہ سے ریاست کو چین میں جیکوٹائی اور کرناگا نورڈچوں سے خرید لیا تو ٹیپو نے اپنی باج گزار ریاست میں اسے مداخلت بے جا قرار دے کر 1790ء میں ٹراونکور پر حملے کا فیصلہ کر لیا۔ انگریزوں نے ٹراونکور کے ساتھ اپنے معاہدے کا بہانہ بنا کر ٹیپو کے خلاف اعلان جنگ کر کے ریاست میسور کے ساتھ ایسٹ انڈیا کمپنی کی تیسری جنگ کا آغاز کر دیا۔ مرہٹوں اور نظام نے حسب معمول کمپنی کا ساتھ دیا۔ اس متحدہ محاذ کا مقابلہ کرنا تنہا میسور کے لئے آسان نہیں تھا‘ نتیجہ یہ ہوا کہ تینوں فوجوں کی دست برد سے عاجز آ کر 1793ء میں ٹیپو نے معاہدہ سرنگا پٹم پر دستخط کر کے تقریباً اپنی آدھی سلطنت کھو دی۔ اگرچہ اسے امید تھی کہ وہ جلد ہی اپنے نقصانات کی تلافی کر سکے گا۔
یہ امید اتنی بڑھی ہوئی تھی کہ مجبوری کی مصالحت کی شرائط پر ٹیپو نے نہ صرف تاوان جنگ دیا بلکہ اپنے دو بیٹے بھی یرغمالی کی حیثیت سے دشمن کے حوالے کر دیئے۔عوامی تائید اور انتھک کوشش سے ٹیپو نے بہت جلد اپنی کھوئی ہوئی طاقت دوبارہ حاصل کر لی۔ اس کے خالی خزانے پھر بھر گئے۔ سلطنت نئے سرے سے خوش حال ہو گئی اور برطانوی سامراج کو شدت سے محسوس ہونے لگا کہ زخمی شیر تندرست ہو کر نو آباد کاروں کے لئے اور زیادہ خطرناک ہو گیا ہے ۔ برطانوی سامراج کے ساتھ ہندوستان کو غلام بنانے کے خلاف ٹیپو سلطان کے تحت ریاست میسور کی جنگ بہت جلد ختم ہو گئی اور 4 مئی 1799ء کو ریاست کے دارالسلطنت سرنگا پٹم پر انگریز فوج کا قبضہ اس حال میں ہوا کہ ایک طرف سلطان کے غدار اعلیٰ حکام برطانوی لشکر کا خیر مقدم کر رہے تھے اور دوسری طرف ’’گیدڑ کی سو سال کی زندگی سے شیر کی ایک دن کی زندگی بہتر ہے‘‘ کہنے والا مرد مجاہد آخری سانس تک دغا باز دشمن سے لڑتا ہوا شہید ہو کر اپنے جانثاروں کی لاشوں کے درمیان گر پڑا۔ حالانکہ اگر و ہ چاہتا تو دشمن سے پناہ اور مال و دولت طلب کر کے اس کے سائے میں زندہ رہ سکتا تھا۔ لیکن اس کی غیرت ایمانی نے اسے گوارہ نہ کیا۔ یہ وہ مرد مجاہد تھا کہ جس نے اپنے بدترین دشمن انگریزوں کے ساتھ بھی حسن سلوک کی وہ داستانیں رقم کیں جو آج بھی تاریخ کے صفحات پر جگمگا رہی ہیں۔
ایک موقع پر ایک انگریز لیفٹیننٹ کی بیوی کو جب یہ ا طلاع موصول ہوئی کہ اس کا خاوند ٹیپو سلطان کے ساتھ ایک معرکے کے بعد گم ہو چکا ہے، یہ وہ وہ معرکہ تھا جس میں بہت سے افراد ہلاک یا زخمی ہوئے تھے۔ تب اس نے ٹیپو سلطان کو ایک خط تحریر کیا اور آنسو بہاتے ہوئے اس سے یہ دریافت کیا کہ اسے بتایا جائے کہ وہ ایک بیوی تھی یا ایک بیوہ؟ اور اگر وہ ہنوز ایک بیوی تھی تب اس کے خاوند کو یہ بتایا جائے کہ وہ اب بھی اس کی وفادار ہے اور ان کے چار سالہ بیٹے کے نیک جذبات بھی اس کے خاوند تک پہنچائے جائیں۔ ٹیپو سلطان نے فوراً اس انگریز لیفٹیننٹ کو رہا کر دیا اور اسے تحفے میں ایک ایسا نیکلس بھی دیا جس میں تیس قیمتی موتی جڑے ہوئے تھے او ر کہا کہ ’’آنسو کے ہر قطرے کے لئے ایک موتی جو اس عورت نے اپنے خاوند کی قسمت پر بہایا تھا۔‘‘ اس کے علاوہ اس نے ان کے چار سالہ بیٹے کے لئے ہندوستانی کھلونوں کا ایک سیٹ بھی بطور تحفہ دیا۔
جب اس انگریز فوجی افسر کی بیوی کو یہ معلوم ہوا کہ اس کا خاوند نہ صرف رہا کر دیا گیا ہے بلکہ اسے گراں قدر تحائف سے بھی نوازا گیا ہے تو اس نے ٹیپو سلطان کو ایک اور خط تحریر کیا جس میں اس کی اس نوازش کا شکریہ ادا کیا گیا تھا۔ اور اس امید کا اظہار بھی کیا گیا تھا کہ اس خاتون کو کسی نہ کسی روز یہ موقع ضرور میسر آئے گا کہ وہ ٹیپو سلطان کے ہاتھ چوم سکے گی۔ اس کے علاوہ اس نے ٹیپو سلطان سے یہ درخواست بھی کی تھی کہ وہ اسے اپنی ایک تصویر (پورٹریٹ) ارسال کرے اور وہ اس تصویر کو اپنے گھر کی زینت بنائے گی اور یہ تصویر اسے ٹیپوسلطان کی رحم دلی کی یاد دلاتی رہے گی۔ اب ٹیپو سلطان نے اس خاتون کو اپنا پورٹریٹ (تصویر) ارسال کیا جو سونے کے فریم سے مزین تھا۔ جب یہ تحفہ فرنگی کیمپ میں پہنچا، اس وقت تک وہ فوجی افسر اپنے اہل خانہ کے ساتھ انگلستان کے لئے روانہ ہو چکا تھا۔ مدراس کے ہیڈ کوارٹر نے ایک انگریز خاتون اور ایک ہندوستانی سلطان کے درمیان خط و کتابت کو ایک غیر مناسب فعل قرار دیا۔ لہٰذا سونے کا فریم بحق سرکار ضبط کر لیا گیا۔ لیکن ٹیپو سلطان کے پورٹریٹ کو انگلستان روانہ کر دیا گیا۔
24دسمبر 1782ء کو جب سلطان ٹیپو کی مسند نشینی کی رسم ادا کی گئی تو حکومت سنبھالتے ہی ٹیپو نے سب سے پہلا کام اپنی فوج کو منظم کرنے کا کیا۔ سلطان نے فوجیوں کی باقاعدہ رجمنٹس قائم کیں اور تن خواہ مقرر کی۔ فوجیوں کی تربیت کے لئے فرانسیسی افسران کی خدمات حاصل کی گئیں۔ ایک اندازہ کے مطابق اس وقت سلطان کے فوجیوں کی تعداد تقریباً ایک لاکھ تھی۔
اسی زمانہ میں سلطان نے بادشاہ کا لقب اختیار کر لیا جسے ہم سایہ ممالک نے فوراً تسلیم کر لیا۔ خطبہ میں مغل حکمران کے بجائے اپنا نام شامل کیا۔ نئی کرنسی کا اجراء کیا۔ سرنگاپٹم کی تاریخی مسجد اعلیٰ کی تعمیر کو اختتام تک پہنچایا۔ انتظامی امور درست کئے۔ حکومت کے نظام کو چلانے کے لئے نئے آئین کو مرتب کرایا اور اسے نافذ کیا۔ ہجری سال کی بجائے نبویؐ سال کو رائج کیا۔ مہینوں کے نام رکھے اور ملک بھر میں صنعتوں کے جال بچھا دیئے۔ صنعت و حرفت پر خاص توجہ دی۔ اس تمام عرصہ میں سلطان یک سوئی کے ساتھ مملکت کے نظام کو صحیح طریقہ سے چلانے کے لئے اقدامات کرتا رہا۔ مختلف ممالک سے سفارتی تعلقات قائم کر کے وہاں سفیر تعینات کئے۔ سلطان ٹیپو کوفرانس کا دستور جموریت بہت پسند تھا۔ ا س نے اس کو اپنی مملکت میں نافذ کیا اور دفاعی اور خارجی امور کے علاوہ تمام تر اختیارات مجلس وزراء کو سونپ دیئے جس کا سربراہ وزیراعلیٰ میرصادق کو بنایا۔
سلطنت کے انتظام میں رعایا کو شریک کرنے کے لئے ٹیپو سلطان نے ایک ’’مجلس وطنی‘‘ (پارلیمنٹ) قائم کی جس کا نام ’’زمرہ غم نہ باشد‘‘ رکھا گیا۔ مطلب یہ کہ شخصی اقتدار کے بجائے مشاورتی حکومت کے قیام سے باشندگان ریاست کے دلوں سے وہ خطرے اور اندیشے دور ہو گئے جو مطلق العنان بادشاہت یا آمریت سے پیدا ہوتے ہیں اور سلطان وقت اب ایک آئینی حکمراں بن گیا جسے اب دستور اور ضابطۂ اخلاق کی پابندی کرنا تھی۔ ٹیپو کا سب سے بڑا کارنامہ اٹھارہویں صدی کی ایک چھوٹی سی ریاست میں جاگیرداری کا خاتمہ اور ایک قسم کی جمہوریت کا آغاز تھا۔ پالیگاروں کی زمین داری کے مظالم کو ختم کر کے سلطان نے زمین کو حکومت کی ملکیت قرار دیا۔ جس کانتیجہ یہ ہوا کہ کسان بیچ کے دلالوں کو چھوڑ کر براہ راست سرکار کو لگان دینے لگے اور یہ قانون بنادیا گیا کہ جب تک کسان زمین کو آباد رکھے اس کو زمین سے بے دخل نہ کیا جائے اور زمین لازماً اس کی ملکیت سمجھی جائے۔ اس طرح ریاست میں زمین کی ایک نئی تقسیم عمل میں آئی جو کسانوں اور مزدوروں کی خوش حالی کا باعث ہوئی۔ سلطنت کا فرمان تھا کہ جو شخص بھی زمین آباد کرنے کے لئے درخواست دے اس کو زمین مفت دی جائے اور اس وقت تک اس سے لگان نہ لیا جائے جب تک زمین میں پیداوار نہ ہو۔اپنے انہیں عوام دوست کاموں اور فلاحی منصوبوں کی وجہ سے وہ اپنے عوام میں بہت مقبول تھا۔ اس کی زیادہ تر رعایا غیر مسلم تھی، مگر وہ بھی اپنے عادل حکمران پر جان چھڑکتی تھی۔
ٹیپو سلطان جدید جنگی ہتھیاروں کی اہمیت سے کماحقہ‘ آگاہ تھا۔ اس امر کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ ہندوستان میں فوجی مقاصد کے لئے راکٹ (میزائل) کا استعمال سب سے پہلے اس نے کیا۔ بحریہ کا قیام بھی سلطان کا ایک زبردست کارنامہ ہے‘ وہ پہلا ہندوستانی حکمراں تھا جسے جنگوں میں سمندری راستوں کی نہ صرف اہمیت کا احساس ہوا بلکہ اس نے ان کا باضابطہ انتظام کرنے کی بھی کوشش کی۔ اس نے ہندوستان کے ساحلوں کی حفاظت کے لئے بحر ہند میں بصرہ‘ ابو شہر عمان اور عدن کی بندرگاہوں کی نگرانی ضروری سمجھی۔ سلطان کی بحری فوج میں تیس امیر البحر تھے۔ جن میں دس ساحل پر اور بیس جہازوں پر رہتے تھے۔ ملاحوں یعنی بحری جہازوں کے عملہ ( Crew) کی تعداد 10 ہزار 520تھی۔ 1794ء میں ایک سو جنگی جہازوں کی تیاری کا حکم دیا گیا تھا۔ پورا جہاز اپنے تمام کل پروزں کے ساتھ ریاست کے ا ندر ہی بنایا جاتا تھا۔
صنعتوں کے قیام، تیل کی دیگر مصنوعات‘ صندل‘ رسی اور قالین‘ ہاتھی دانت کا کام‘ نمک بنانا ‘ ایشیاء پر سونے کا رنگ چڑھانا‘ اون‘ فنون لطیفہ‘ ریشم‘ روئی کی مصنوعات سلطنت خداداد کے محکمہ تعمیرات وغیرہ‘ اس کے وہ کارنامے ہیں جو ترقی کے تصور کے بارے میں اس کے باشعور ہونے کو اجاگر کرتے ہیں۔
غیر شرعی رسموں پر بھی سلطان نے سخت گرفت کی۔ منشیات ممنوع قرار دی گئی۔ شہروں اور دیہاتوں میں شرعی عدالتیں قائم کی گئیں۔ ذات پات کے نسلی فخر پر ضرب لگائی گئی۔ جمعہ کے خطبوں کی اہمیت پر زور دے کر انہیں عوام کے لئے مفید بنایا گیا۔ اس مقصد کے لئے مسنون عربی خطبات کے علاوہ انہی کا ایک حصہ بنا کر عام نمازیوں کی سمجھ میں آنے والی زبان مثلاً اس وقت فارسی میں منبر سے خطاب کو رواج دیا گیا اور لوگوں کے دینی شعور کی تربیت، احکام شریعت سے آگاہی اور اخلاقی اصلاح کے لئے نئے خطبات مرتب کر کے شائع کیے۔
ٹیپو سلطان کے دور میں غیر مسلم رعایا کو ناصرف اپنے مذہب پر عمل کرنے کی مکمل آزادی تھی بلکہ سلطان ان کے مندروں کو وظائف کی صورت میں کثیر سرمایہ بھی دیا کرتا۔ اس کی حکومت میں ہندو بڑے بڑے سرکاری عہدوں پر فائز تھے۔
2015 ء میں ہندوستان کی ریاست کرناٹک کے وزیر اعلٰی نے فیصلہ کیا کہ وہ 10نومبر کو ٹیپو سلطان کی سالگرہ کو سرکاری سطح پر منائیں گے (یاد رہے کہ ریاست میسور موجودہ کرناٹک میمں شامل ہے)۔ جیساکہ سب جانتے ہیں کہ آج کل ہندوستان پر حکمران بی جے پی کھلم کھلا ہندوتوا کی پر چارک بنی ہوئی ہے اور اپنی انتہا پسندی کی وجہ سے ماضی میں ہندوستان پر حکمرانی کر چکنے والے تمام مسلمان حکمرانوں کو غیر ہندوستانی قرار دیتے ہوئے ہندوستان کی تاریخ سے نکال باہر کرنے پر تلی بیٹھی ہے۔ اسی لئے ریاست کرناٹک کے اس شاندار فیصلے کی بی جے پی اور آر ایس ایس نے ڈٹ کر مخالفت کی مگر کرناٹک کے وزیر اعلٰی نے اس کی کوئی پروا نہیں کی اور اس سال 10 نومبر 2017 کو مسلسل تیسری بار بھی ٹیپو سلطان کی سالگرہ سرکاری طور پر منا کر اس عادل حکمران اور آزادی کے متوالے کو زبردست خراج تحسین پیش کیا۔