تحریر: اویس رحمان
اقبال نے بھی کیا خوب کہا تھا کہ
“وہ معزز ہوئے زمانے میں مسلمان ہوکر،
اور ہم خوار ہوئے تارک قرآن ہوکر
افغانستان کے صوبے قندوز کی ایک مسجد میں مدرسے کے فارغ التحصیل حفاظ قرآن، (اسٹوڈنٹ) حفظ قرآن کی تکمیل،
یعنی اپنے دل و دماغ میں قرآن پاک کو محفوظ کرنے کے بعد اپنے مدرسے یعنی اپنی درس گاہ (اسکول) کے سالانہ دستار بندی (انیول فنکشن) میں اپنے استادوں (ٹیچرز) سے اسناد(ایوارڈ) وصول کرنے میں مصروف ہی تھے کے عین اسی وقت
انسانیت کے نام نہاد علمبردار، انسانی حقوق کے دعوے دار اور عالمی دھشت گرد “امریکہ” اور اسکے اتحادیوں کی بدنام زمانہ فوجیوں نے نہتے ننھے پھولوں پر بارود نچھاور کرتے ہوئے انہیں خون میں نہلادیا۔۔۔۔
ایک آزاد زرائع کیمطابق اس درد ناک اور انتہائی انسانیت سوز واقع میں کم و بیش 100 سے زائد طالب علم جام شہادت نوش کرگئے
جبکہ 200 سے زائد تاحال زخمی ہیں ۔۔۔
قندوز کے شہید حفاظ تو یقینا” جنت کی حسین وادیوں میں ہوں گے ۔۔مگر روز محشر میں
ان نام نہاد انسانی حقوق کی تنظیموں ،
معمولی سی خبر کو اخبارات کی زینت اور مکس پلیٹ کر کے بریکنگ نیوز بنا کر پیش کرنے والی
الیکٹرونک و پرنٹ میڈیا اور دیسی “ملالاوں” سے یہ سوال ضرور کریں گے کہ
قندوز میں ایک نہیں،دو نہیں،درجنوں نہیں
بلکہ سینکڑوں کی تعداد میں “مشعال خانز” شہیدہوئے۔۔۔
کیا قندوز میں نشانہ بننے والے انسان نہیں تھے۔۔۔!!!!!!
واقعی کسی شاعر نے خوب کہا ہے کہ
“شہید کا ہے مقام کیسا ،
افق کے اس پار جا کہ دیکھو۔۔۔۔۔