آن لائن ہراسمنٹ، حل اور احتیاطی تدابیر

عبداللہ فیضی

دورِ جدید میں سوشل میڈیا اور اسمارٹ فونز میں دستیاب باہمی رابطوں کی تیز ترین اپلیکیشنز جہاں بہت سی آسانیاں پیدا کررہی ہیں وہیں اِن جدید ذرائع ابلاغ سے جڑے نت نئے خطرات اور جرائم بھی سامنے آرہے ہیں۔ اِنہی خطرات میں سے سب سے حساس اور پوری دنیا میں تیزی سے بڑھتا ہوا خطرہ آن لائن ہراسمنٹ اور ذاتی معلومات کے افشا ہونے کا ہے۔

پیو ریسرچ کے ایک سروے کے مطابق صرف امریکہ میں 18 سے 29 برس کے 65 فیصد انٹرنیٹ صارفین کو آن لائن ہراسمنٹ کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ بدقسمتی سے پاکستان میں بھی انٹرنیٹ سے جڑے جرائم کی تعداد روز بروز بڑھ رہی ہے۔ اِس حوالے سے وفاقی تفتیشی ادارے (FIA) کی رپورٹ کے مطابق سنہ 15-2014ء میں آن لائن ہراسمنٹ کے کل 3 ہزار سے زائد کیسز رپورٹ ہوئے جن میں اکثریت کا نشانہ خواتین بنیں۔ ڈیٹا رائٹس فاؤنڈیشن کی آن لائن ہراسمنٹ پر شائع کردہ تازہ سروے کے مطابق پاکستان میں انٹرنیٹ استمعال کرنے والی 40 فیصد خواتین صارفین کو کسی نا کسی طرح سے ہراسمنٹ کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ پاکستان میں آن لائن ہراسمنٹ کا سب سے زیادہ شکار فیس بک صارف خواتین بنیں جبکہ بلاگ، کمنٹس، چیٹ گروپس اور واٹس ایپ میسیجز کے ذریعے بھی قابلِ ذکر تعداد میں ہراسمنٹ کی شکایات سامنے آئیں۔

یہاں یہ بات قابلِ ذکر ہے کہ سوشل میڈیا اور دیگر رابطے کے ذرائع استعمال کرنے والی خواتین صارفین کی اکثریت نجی ڈیٹا سیکیورٹی اور پرائیویسی سے متعلق جہاں سوشل میڈیا ویب سائیٹس اور اپلیکشنز کی شرائط و ضوابط سے مکمل لاعلم تھیں وہیں انہیں اپنے آن لائن پرائیویسی حقوق سے متعلق بھی آگاہی حاصل نہیں تھی۔

اِس حوالے سے آن لائن ہراسمنٹ، صارف کے حقوق کا تحفظ، متعلقہ قوانین اور اداروں تک رسائی اور کسی ناخوشگوار صورتحال سے بچنے اور نمٹنے کے لیے زیرِ نظر مضمون میں کچھ تجاویز پیش کی گئی ہیں جن کی مدد سے انٹرنیٹ استعمال کرنے والے صارفین اپنے ذاتی معلومات کی حفاظت بہتر طور پر کرسکیں گے۔

 

آن لائن ہراسمنٹ کیا ہے؟

آن لائن ہراسمنٹ مختلف طرح کی ہوسکتی ہے،

  • جس میں کسی کا انٹرنیٹ پر پیچھا کرنا (online stalking)،
  • کسی کی نجی معلومات (personal data) تک بِنا اجازت رسائی حاصل کرنا،
  • کسی دوسرے کی تصاویر، ویڈیوز یا میسیجز کی بِنا اجازت تشہیر کرنا،
  • کسی کے نجی معلومات، ڈیٹا کو بِلا اجازت پبلک کرنا،
  • کسی کو آن لائن دھمکی دینا، ڈرانا دھمکانا، گالم گلوچ، تنگ کرنا یا بُرا بھلا کہنا،
  • دوسرے کے انٹرنیٹ رابطوں سوشل میڈیا اکاؤنٹ ہیک کرنا،
  • کسی کے جنسی و غیر اخلاقی نوعیت کے مواد کی اشاعت،
  • کسی کی تصاویر کی جعل سازی، اشتعال یا بدلے کی صورت میں نجی تصاویر یا ویڈیو کی تشہیر،
  • ای میل پاس ورڈز چوری کرنا،
  • کسی کا جعلی اکاؤنٹ بنانا اور بلیک میلنگ وغیرہ شامل ہیں۔

یاد رکھیے! صارف کی ذاتی معلومات (تصاویر، ویڈیو، گھر کا پتہ، خاندانی، نجی و خانگی تفصیلات، کاروباری اور پروفیشنل کاغذات، طبی معلومات وغیرہ) صارف کی آن لائن پراپرٹی کی حیثیت رکھتے ہیں۔ لہذا اِن کا استعمال اور تشہیر صرف صارف کا خاص حق ہے۔ اِس بابت کسی دوسرے شخص یا ادارے کو بِنا اجازت بیان کردہ معلومات کے افشا اور استعمال کی قطعاً اجازت نہیں ہے۔

 

ہراسمنٹ کن کی جانب سے کی جاتی ہے؟

آن لائن ہراسمنٹ کسی کی بھی طرف سے کی جاسکتی ہے۔ بڑے پیمانے پر منظم جرائم پیشہ گروہ، فرد یا پھر انفرادی سطح پر کسی جاننے والے کی طرف سے بھی ایسا کیا جاسکتا ہے۔ منظم گروہ زیادہ تر ہیکنگ کا طریقہ استعمال کرتے ہیں جس میں کسی کمپیوٹر سافٹ وئیر یا پھر براہِ راست ویب سائٹ ڈیٹا بیس تک رسائی حاصل کرکے صارفین کی معلومات حاصل کی جاتی ہیں۔ جبکہ جاننے والے افراد یعنی صارف کے بااعتماد ساتھی، قریبی دوست یا رشتہ دار وغیرہ کی جانب سے صارف کی اعتماد کی بنیاد پر ارسال کردہ تصاویر کا غلط استعمال بھی سامنے آسکتا ہے۔ جاننے والے یا قابلِ اعتماد افراد کیونکہ صارف کے اردگرد ہوتے ہیں لہذا انہیں صارف کی الیکٹرانک ڈیوائسز تک رسائی اور بعض صورتوں میں پاس ورڈ وغیرہ کی معلومات ہوتی ہیں، جن کا وہ کچھ بھی غلط استمعال کرسکتے ہیں۔

 

ہراسمنٹ کا نشانہ کون بنتے ہیں؟

آن لائن ہراسمنٹ کا نشانہ مرد و خواتین یکساں طور پر بن سکتے ہیں۔ FIA کی رپورٹ کے مطابق 45 فیصد واقعات میں خواتین کو مردوں کی طرف سے ہراسمنٹ کا سامنا کرنا پڑا۔ ہراسمنٹ کا آسان ہدف کم تعلیم یافتہ افراد ہوتے ہیں جو انٹرنیٹ کے خطرات سے مکمل آگاہی نہیں رکھتے یا اپنی پرائیویسی کی حفاظت کا بندوبست نہیں کرتے۔ اِس کے علاوہ انٹرنیٹ استعمال کرنے والے کم عمر بچے بھی ہراسمنٹ کا آسان ہدف ہیں۔

 

ہراسمنٹ کے مقاصد

منظم گروہ عموماً صارف کو بلیک میل کرکے اُس کے نجی ڈیٹا کو ڈیلیٹ کرنے کے بدلے رقم کا مطالبہ کرتے ہیں۔ جبکہ انفرادی سطح پر مختلف قسم کے مطالبات سامنے آتے ہیں جن میں صارف کو ڈرا دھمکا کر کوئی خاص کام، جنسی تعلق یا غیر اخلاقی مطالبہ کسی جرم میں معاونت یا رقم طلب کی جاتی ہے۔

 

ہراسمنٹ سے متعلق قوانین اور سزا

پاکستان میں Prevention of Electronic Crimes Bill 2015 کے نام سے ایک قانون متعارف کروایا گیا ہے، جس کے تحت آن لائن ہراسمنٹ کو جرم تسلیم کیا گیا ہے اور خواتین کے حوالے سے مختص دفعہ کے تحت آن لائن جنسی ہراساں کرنے، اُن کی تصاویر (اصل یا ایڈیٹ شدہ) کو بِنا اجازت شائع کرنے یا غیر اخلاقی استعمال کرنے والے کو ایک سال قید یا دس لاکھ روپے جرمانہ یا دونوں سزائیں اکھٹی دی جاسکتی ہیں۔ اِس حوالے سے اب تک کئی افراد کو گرفتار کیا گیا اور سزائیں سنائی گئی ہیں۔

 

ہراسمنٹ سے بچاؤ کی احتیاطی تدابیر

  • اپنے اسمارٹ فونز اور کمپیوٹر وغیرہ کو ہمیشہ مشکل پاس ورڈ سے محفوظ بنائیں اور یقینی بنائیں کہ آپ کی ڈیوائس آٹو لاک آپشن پر ہے۔
  • اپنے لیپ ٹاپ اور دیگر ڈیوائیسز میں ہمیشہ اپڈیٹڈ سیکیورٹی سافٹ وئیر (anti-virus) انسٹال کریں۔
  • موبائل اپلیکشنز اور کمپیوٹر سافٹ وئیرز صرف قابلِ بھروسہ ویب سائٹس اور آفیشل سورسز سے ہی انسٹال کریں۔
  • انسٹال کردہ ایپس اور سافٹ وئیرز کی اجازت (permissions) اور شرائط کا بغور جائزہ لیں اور صرف وہ اجازت مہیا (allow) کریں جو ضروری ہوں۔
  • سسٹم اپڈیٹس کو ہمیشہ جلد انسٹال کریں۔
  • ای میلز اور ٹیکسٹ میسیجز پر آنے والے لنکس (spams) سے محتاط رہیں، غیر ضروری اور مشکوک لنکس پر کلک نا کریں۔
  • گھریلو وائی فائی ڈیواسز کو استعمال کے بعد بند کردیں۔
  • عوامی وائی فائی پر ذاتی معلومات اور حساس ڈیٹا شئیر نہ کریں۔
  • اپنا پاس ورڈ غیر ضروری اور مشکوک لاگ ان میں مت داخل کیجئے۔
  • مختلف ویب سائٹس اور اکاؤنٹس کے لئے علیحدہٰ پاس ورڈ استعمال کریں۔
  • الیکٹرانک ڈیوائیسز (کمپیوٹر، فون اور وائی فائی) کے لئے اپنا نام، فون نمبر یا اِسی قسم کا کوئی آسانی سے بوجھے جانے والا پاس ورڈ استعمال نہ کریں، پاس ورڈ وقتاً فوقتاً تبدیل کرتے رہیں، پاس ورڈ میں نمبرز اور بڑے چھوٹے حروف کا پیچیدہ ملاپ (combination) بنائِیں اور کسی سے شیئر مت کریں یا بعد میں فوراً تبدیل کردیں۔
  • فیس بک اور دیگر سوشل میڈیا ویب سائیٹس کے لئے سیکیورٹی کوڈ لاگ ان یا موبائل ویریفیکیشن آپشن آن کریں۔
  • صرف مخصوص افراد کو ہی سوشل میڈیا پر اپنی آن لائن سرگرمی مشاہدہ کرنے کی رسائی دیں، بِنا جان پہچان کے لوگوں سے رابطے میں محتاط رہیں، فیس بک پرائیویسی کا بغور جائزہ لیں۔
  • سرچ انجن سے اپنی پروفائل بلاک کریں، کسی سرچ انجن مثلاً DuckDuckGo سے اپنی آن لائن دستیاب معلومات کا جائزہ لیں، غیر ضروری معلومات ڈیلیٹ کردیں۔ اپنی ڈیوائیسز کو گوگل اور دیگر ویب سائٹس پر مستقل ڈیٹا اپڈیٹ (جیسے لوکیشن سروسز وغیرہ) سے روکیں۔
  • اپنی آن لائن سرگرمی کو محدود کریں اور کم سے کم ذاتی معلومات پبلک کریں۔
  • مفت سروسز کے حصول کے لئے ذاتی معلومات داخل نہ کریں۔ ہمیشہ قابل بھروسہ براؤزر استعمال کریں اور مشکوک ویب سائٹس سے دور رہیں۔
  • اپنی نجی تصاویر نہایت احتیاط سے استعمال یا شیئر کریں۔ صرف قابل بھروسہ افراد سے بس وہی تصاویر شیئر کریں جن کا غلط استعمال یا ایڈیٹ کرنا مشکل ہو۔
  • اپنے دوستوں کا انتخاب خوب سوچ سمجھ کر کریں اور اُن سے اپنی معلومات اور ڈیٹا کا تبادلہ کرنے میں نہایت احتیاط سے کام لیں۔ مشکوک اور انجان افراد کو دوستوں کی فہرست سے نکال دیں۔
  • جعلی اور مشکوک آئیڈیز سے دور رہیں، اپنی نجی تصاویر کو کبھی آن لائن (cloud) محفوظ نہ کریں۔
  • ڈیوائیس بلاک کرنے کا آپشن آن رکھیں تاکہ گم ہونے کی صورت میں ذاتی ڈیٹا ضائع کیا جاسکے۔
  • آپ کے جاننے والوں (حتیٰ کے دوستوں) میں کوئی اِس قسم کا شخص نظر آئے جو دوسروں کی پرائیوسی تک رسائی چاہتا ہو یا ایسا کررہا ہو اور یہ بات آپ کے علم میں ہو تو اُس کی حوصلہ شکنی کریں، سمجھائیں، رپورٹ کریں یا قطع تعلق کریں۔

 

ہراسمنٹ کا نشانہ بننے کی صورت میں کیا کیا جائے؟

  • ایسی صورت میں اپنے حواس مجتمع رکھیں اور کبھی بلیک میل نہ ہوں اور نہ ہی دباؤ میں آئیں۔
  • یاد رکھیں اپنا ڈیٹا شیئر کرکے آپ سے غلطی تو ہوئی ہے لیکن ہراس کرنے والا جرم کررہا ہے لہذا اسے متنبہ کریں اور ساری چیٹ بطور ثبوت محفوظ کرلیں۔
  • اپنے والدین، بہن یا بھائی کو خود ہی حقیقی صورتحال سے آگاہ کریں تاکہ ہراس کرنے والا آپ کے خوف کو آپ کے خلاف استعمال نہ کرسکے (آپ سے غلطی ہوسکتی ہے اب اِسے چھپا کر بگاڑیں نہیں)۔ عموماً ایسی صورتحال میں لوگ ایسی بات بدنامی کے ڈر سے چھپاتے ہیں، جس کی وجہ سے زیادہ نقصان کا خدشہ ہوتا ہے اور بعض صورتوں میں وہ اپنے ڈر کی وجہ سے ناجائز مطالبہ مان کر مزید اور سنگین مشکلات میں پھنس جاتے ہیں۔
  • والدین یا بہن بھائی وغیرہ کو چائیے کہ ایسی صورتحال میں متاثرہ فرد کا ساتھ دیں اور فوراً قانونی کارروائی کا آغاز کریں۔ ایسا کرنے سے ہراساں کرنے والا خود ہی گھبرا جائے گا، کیونکہ جدید ٹیکنالوجی کے دور میں موثر کارروائی کی صورت میں اِس کا بچ نکلنا ناممکن ہے۔ یاد رکھیے ایسے موقع پر آپ کی متاثرہ فرد پر سختی یا جذباتی ردِعمل بعد میں پچھتاوے کا سبب بنے گا لہذا خود پر قابو رکھیے۔ نام نہاد بدنامی یا غصہ کے زیرِ اثر کوئی غلط قدم نہ اٹھائیں۔
  • ایف آئی اے سائبر کرائیم سیل کو اسکرین شاٹس اور دیگر ثبوت مندرجہ ذیل ایڈریس پر رپورٹ

http://www.nr3c.gov.pk/creport.php

Helpdesk@Nr3c.Gov.Pk

help@digitalrightsfoundation.pk

پر رپورٹ کریں۔ یہ ویب سائٹ خصوصی طور پر خواتین کے لئے بنائی گئی ہیں۔ تسلی رکھیے کہ آپ کی شناخت اور معلومات محفوظ رہیں گیں۔ اِس کے علاوہ موبائل میسیج یا کال پر دھمکی کی صورت میں قریبی پولیس اسٹیشن میں رپورٹ درج کروائیے۔

جعلی اکاؤنٹ ڈیلیٹ کروانے کے لئے فیس بک https://www.facebook.com/help/www/116326365118751  پر رابطہ کیجئے اور اکاؤنٹ رپورٹ کیجئیے۔ جعلی اکاؤنٹس کے معاملے میں فیس بک کی پالیسی خاصی سخت ہے۔ اِسی طرح اپنی تصاویر یا ویڈیو آن لائن ڈیلیٹ کروانے کے لیے بھی فیس بک پر ہی رابطہ کیجیے۔

یہ بات ذہن میں رکھیے کہ آپ کا ڈر ہی ہراساں کرنے والے کا ہتھیار ہوتا ہے اگر آپ اِن تجاویز پر عمل کریں تو یقیناً اِس قسم کی صورتحال سے بچ بھی سکتے ہیں اور قابو بھی پاسکتے ہیں۔

آن لائن سوسائٹی بھی ہمارے معاشرہ کا ہی عکس ہے، جہاں اچھے اور بُرے ہر طرح کے لوگ پائے جاتے ہیں، جس طرح ہم اصل زندگی گھر سے باہر نکلتے ہوئے لوگوں سے میل جول میں کچھ اطوار اور احتیاط برتتے ہیں، بالکل اِسی طرح آن لائن سرگرمیوں کے بھی کچھ اصول و ضوابط ہوتے ہیں لہذا اِن اصول و ضوابط کا خیال رکھیے، دوسروں کی نجی معلومات اور اپنی نجی معلومات کی حفاظت ہم سب کی مشترکہ ذمہ داری ہے۔

نوٹ:بی ایل ٰآئی اور اس کی پالیسی کا لکھاری کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے

اگر آپ بھی ہمارے لیے بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریراپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک و ٹویٹر آئی ڈیز اور اپنے  مختصر  مگر جامع  تعارف  کیساتھ info@bli.com.pk پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اور ویڈیو لنکس بھی۔

About BLI News 3238 Articles
Multilingual news provider for print & Electronic Media. Interviews, Exclusive Stories, Analysis, Features, Press Conferences Photo & Video Coverage and Economic Reviews, Pakistan and Worldwide. Opinions, Documentaries & broadcast.