آزادی مل گئی
انہوں نے اپنے ساتھیوں سے پوچھا کے کس نے ان معصوم بچوں کو پکڑ کر بے زبان چڑیا کو تکلیف پہنچائی ہے ۔قافلہ کے سردار نے اپنے ساتھیوں کو حکم دیا کہ ان معصوم بچوں کو چھوڑ دیا
فصیح اللہ حسینی:
گھنے جنگل کے پار اُفق پر سورج آب و تاب کے ساتھ چمک رہا تھا اور سورج کی شعاعیں درختوں کی اوٹ سے جھانکتے ہوئے جنگل کی ناہموار زمین پر بمشکل پہنچ رہی تھیں۔ گویا جنگل کی زندگی میں ہر سواُجالا پھیل چکا تھا اور اس کے ساتھ ہی تمام چرند پرند بھی اپنی اپنی نگاہوں میں میٹھی اور معصوم سی انگڑائی لے کر بیدار ہوچکے تھے، وہ سب اپنی سریلی اور خوب صورت آواز میں خدائے واحد کی حمدوثناء میں مصروف تھے۔ درختوں پر بسیرا کئے پرندے بھی اپنے اپنے بچوں کو بیدار کرکے گزشتہ رات کے جمع کئے دانوں سے اُن کو ناشتہ کرارہے تھے۔ ننھے ننھے پرندوں کے بابا جان آج کے دن کیلئے راشن تلاش کرنے نکل پڑے تھے۔ جبکہ ماما جان اپنے اپنے گھونسلوں کی صفائی ستھرائی کررہی تھیں۔ اِنہی درختوں میں سے ایک درخت پر چڑیا بی اپنے دو ننھے ننھے بچوں کے ساتھ رہ رہی تھیں۔ بچوں کے ابا یعنی چڑے میاں اپنے دیگر ساتھیوں کے ساتھ دانہ کی تلاش میں نکل پڑے تھے۔ معمول کے مطابق چڑیا بھی نے اپنے بچوں کو نہلایا دھلایا اور دیگر کام کاج سے فارغ ہوکر اب وہ پڑوس کے درخت پر بی فاختہ کے بچوں کی طبیعت دریافت کرنے گئی ہوئی تھیں۔ بی فاختہ کے بچے کئی روز سے سرد موسم کے باعث بیمار ہوگئے تھے۔ جاتے جاتے چڑیا بی اپنے بچوں سے کہہ کر گئی تھیں کہ دیکھو شرارتیں نہ کرنا ورنہ شیطان کے چیلے کوے آکر تمہیں کچا کھا جائیں گے۔ اُدھر چڑیا بی کے جاتے ہی بچوں پر کووں کا خوف طاری تھا مگریہ ڈر اُن کی شرارتی اور بے چین طبیعت پر زیادہ دیرحاوی نہ رہ سکا اور دونوں بچوں نے کھیل کود شروع کردیا۔ کھیل یہ تھا کہ دونوں بچے بیک وقت اپنے گھونسلے سے اُڑان بھرتے اور زمین پر آکر ایک تنکا اُٹھا کر واپس گھونسلے میں لے جاتے۔ جو پہلے واپس آتا وہ جیت جاتا۔دو مرتبہ تنکے اٹھا کر لانے کے بعد تیسری مرتبہ آخری مرتبہ مقابلہ کیلئے دونوں نے اپنے پر تولے اور زمین پر آنے لگے، ابھی وہ زمین سے کچھ فاصلے پر ہی تھے کہ یکایک کسی چیز نے انہیں آگھیرا اور وہ دونوں ایک مضبوط شکنجے میں پھنس گئے۔ ننھے ننھے بچوں کے جب حواس بحال ہوئے تو اُنہوں نے دیکھا کے دونوں کسی قافلے کے ہاتھوں جکڑ لئے گئے ہیں۔ اُنہوں نے سوچا کے یہ شکاری اُنہیں پکڑ کر لے جائیں گے، یہ جاننا تھاکہ دونوں اپنے بچاؤ کیلئے چیخ وپکار کرنے لگے۔ اُدھر چڑیا بی کو جب کسی کی چیخ وپکار سنائی دی تو وہ پریشان ہوگئیں کہ اللہ خیر کرے کہیں یہ میرے بچے تو نہیں رور ہے۔ جب چڑیا نے اپنے درخت کے قریب آکر یہ منظر دیکھا کہ اُن کے دونوں ننھے ننھے معصوم سے روئی کے گالے بچے انسانی شکار بننے جارہے ہیں تو اُن سے رہا نہ گیا۔ حلیے سے یہ انسا ن تو بہت اچھے معصوم ہوتے تھے مگر چڑیا بی کی سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ آخر اُنہوں نے بچوں کو کیوں پکڑا ہے ۔ اپنی جان خطرے میں ڈال کر وہ اُن چند آدمیوں کے گرد منڈلانے لگیں اور ساتھ ساتھ اپنے اللہ تعالیٰ سے دعا کرنے لگیں کہ اللہ تعالیٰ میرے بچوں کو اِن سے نجات دلادے، یہ تو بے قصور ہیں ۔ ابھی چڑیا اپنے اللہ تعالیٰ سے دعا مانگ رہی تھیں کہ انہوں نے دیکھا کہ ایک اور شخص اُس انسانی قافلہ کے ساتھ آملے۔ یہ شخص اُن سب میں بہت بااخلاق، شریف اور بھلے معلوم ہوتے تھے اور اُس پورے گروہ کے سردار بھی شاید یہی تھے۔ جیسے ہی انہوں نے دیکھا کہ چڑیا بی کے دو ننھے ننھے معصوم بچے ان کے ساتھیوں کے قبضے میں ہیں اور اُن بچوں کی ماں پریشان اُن کے گرد منڈلا رہی ہے تو وہ فکر مند ہوگئے اور انہوں نے اپنے ساتھیوں سے پوچھا کے کس نے ان معصوم بچوں کو پکڑ کر بے زبان چڑیا کو تکلیف پہنچائی ہے ۔ قافلہ کے لوگوں نے اپنے سردار کو سارا ماجرا کہہ سنایا کہ جب آپ اپنی ضرورت کیلئے گئے تو ہم نے ان بچوں کو پکڑ لیا، جب سے یہ چڑیا اپنے بچوں کے پیچھے ہمارے سروں پر منڈلا رہی ہے۔ قافلہ کے سردار نے اپنے ساتھیوں کو حکم دیا کہ ان معصوم بچوں کو چھوڑ دیا، چنانچہ ساتھیوں نے حکم کی تعمیل کی اور یوں چڑیا بی نے اُن کے سردار کو تشکر آمیز نظروں سے دیکھا اور خوشی خوش اپنے بچوں کو لے کر اپنے گھونسلے کی جانب اڑ گئیں۔بچو! کیا آپ جانتے ہیں کہ یہ نیک لوگ کون تھے؟ یہ نیک لوگ ہمارے پیارے نبیﷺ کے پیارے ساتھی، صحابہ کرام تھے اور اس قافلہ کے سردار خود ہمارے پیارے نبی حضرت محمد ﷺ تھے جو تمام جہانوں کیلئے رحمت بن کر اس دنیا میں تشریف لائے۔
گھنے جنگل کے پار اُفق پر سورج آب و تاب کے ساتھ چمک رہا تھا اور سورج کی شعاعیں درختوں کی اوٹ سے جھانکتے ہوئے جنگل کی ناہموار زمین پر بمشکل پہنچ رہی تھیں۔ گویا جنگل کی زندگی میں ہر سواُجالا پھیل چکا تھا اور اس کے ساتھ ہی تمام چرند پرند بھی اپنی اپنی نگاہوں میں میٹھی اور معصوم سی انگڑائی لے کر بیدار ہوچکے تھے، وہ سب اپنی سریلی اور خوب صورت آواز میں خدائے واحد کی حمدوثناء میں مصروف تھے۔ درختوں پر بسیرا کئے پرندے بھی اپنے اپنے بچوں کو بیدار کرکے گزشتہ رات کے جمع کئے دانوں سے اُن کو ناشتہ کرارہے تھے۔ ننھے ننھے پرندوں کے بابا جان آج کے دن کیلئے راشن تلاش کرنے نکل پڑے تھے۔ جبکہ ماما جان اپنے اپنے گھونسلوں کی صفائی ستھرائی کررہی تھیں۔ اِنہی درختوں میں سے ایک درخت پر چڑیا بی اپنے دو ننھے ننھے بچوں کے ساتھ رہ رہی تھیں۔ بچوں کے ابا یعنی چڑے میاں اپنے دیگر ساتھیوں کے ساتھ دانہ کی تلاش میں نکل پڑے تھے۔ معمول کے مطابق چڑیا بھی نے اپنے بچوں کو نہلایا دھلایا اور دیگر کام کاج سے فارغ ہوکر اب وہ پڑوس کے درخت پر بی فاختہ کے بچوں کی طبیعت دریافت کرنے گئی ہوئی تھیں۔ بی فاختہ کے بچے کئی روز سے سرد موسم کے باعث بیمار ہوگئے تھے۔ جاتے جاتے چڑیا بی اپنے بچوں سے کہہ کر گئی تھیں کہ دیکھو شرارتیں نہ کرنا ورنہ شیطان کے چیلے کوے آکر تمہیں کچا کھا جائیں گے۔ اُدھر چڑیا بی کے جاتے ہی بچوں پر کووں کا خوف طاری تھا مگریہ ڈر اُن کی شرارتی اور بے چین طبیعت پر زیادہ دیرحاوی نہ رہ سکا اور دونوں بچوں نے کھیل کود شروع کردیا۔ کھیل یہ تھا کہ دونوں بچے بیک وقت اپنے گھونسلے سے اُڑان بھرتے اور زمین پر آکر ایک تنکا اُٹھا کر واپس گھونسلے میں لے جاتے۔ جو پہلے واپس آتا وہ جیت جاتا۔دو مرتبہ تنکے اٹھا کر لانے کے بعد تیسری مرتبہ آخری مرتبہ مقابلہ کیلئے دونوں نے اپنے پر تولے اور زمین پر آنے لگے، ابھی وہ زمین سے کچھ فاصلے پر ہی تھے کہ یکایک کسی چیز نے انہیں آگھیرا اور وہ دونوں ایک مضبوط شکنجے میں پھنس گئے۔ ننھے ننھے بچوں کے جب حواس بحال ہوئے تو اُنہوں نے دیکھا کے دونوں کسی قافلے کے ہاتھوں جکڑ لئے گئے ہیں۔ اُنہوں نے سوچا کے یہ شکاری اُنہیں پکڑ کر لے جائیں گے، یہ جاننا تھاکہ دونوں اپنے بچاؤ کیلئے چیخ وپکار کرنے لگے۔ اُدھر چڑیا بی کو جب کسی کی چیخ وپکار سنائی دی تو وہ پریشان ہوگئیں کہ اللہ خیر کرے کہیں یہ میرے بچے تو نہیں رور ہے۔ جب چڑیا نے اپنے درخت کے قریب آکر یہ منظر دیکھا کہ اُن کے دونوں ننھے ننھے معصوم سے روئی کے گالے بچے انسانی شکار بننے جارہے ہیں تو اُن سے رہا نہ گیا۔ حلیے سے یہ انسا ن تو بہت اچھے معصوم ہوتے تھے مگر چڑیا بی کی سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ آخر اُنہوں نے بچوں کو کیوں پکڑا ہے ۔ اپنی جان خطرے میں ڈال کر وہ اُن چند آدمیوں کے گرد منڈلانے لگیں اور ساتھ ساتھ اپنے اللہ تعالیٰ سے دعا کرنے لگیں کہ اللہ تعالیٰ میرے بچوں کو اِن سے نجات دلادے، یہ تو بے قصور ہیں ۔ ابھی چڑیا اپنے اللہ تعالیٰ سے دعا مانگ رہی تھیں کہ انہوں نے دیکھا کہ ایک اور شخص اُس انسانی قافلہ کے ساتھ آملے۔ یہ شخص اُن سب میں بہت بااخلاق، شریف اور بھلے معلوم ہوتے تھے اور اُس پورے گروہ کے سردار بھی شاید یہی تھے۔ جیسے ہی انہوں نے دیکھا کہ چڑیا بی کے دو ننھے ننھے معصوم بچے ان کے ساتھیوں کے قبضے میں ہیں اور اُن بچوں کی ماں پریشان اُن کے گرد منڈلا رہی ہے تو وہ فکر مند ہوگئے اور انہوں نے اپنے ساتھیوں سے پوچھا کے کس نے ان معصوم بچوں کو پکڑ کر بے زبان چڑیا کو تکلیف پہنچائی ہے ۔ قافلہ کے لوگوں نے اپنے سردار کو سارا ماجرا کہہ سنایا کہ جب آپ اپنی ضرورت کیلئے گئے تو ہم نے ان بچوں کو پکڑ لیا، جب سے یہ چڑیا اپنے بچوں کے پیچھے ہمارے سروں پر منڈلا رہی ہے۔ قافلہ کے سردار نے اپنے ساتھیوں کو حکم دیا کہ ان معصوم بچوں کو چھوڑ دیا، چنانچہ ساتھیوں نے حکم کی تعمیل کی اور یوں چڑیا بی نے اُن کے سردار کو تشکر آمیز نظروں سے دیکھا اور خوشی خوش اپنے بچوں کو لے کر اپنے گھونسلے کی جانب اڑ گئیں۔بچو! کیا آپ جانتے ہیں کہ یہ نیک لوگ کون تھے؟ یہ نیک لوگ ہمارے پیارے نبیﷺ کے پیارے ساتھی، صحابہ کرام تھے اور اس قافلہ کے سردار خود ہمارے پیارے نبی حضرت محمد ﷺ تھے جو تمام جہانوں کیلئے رحمت بن کر اس دنیا میں تشریف لائے۔