یہ کہانی میرے دوست نے مجھے سنائی تھی،اسکا ایک کلاس فیلو تھا جس کے ساتھ یہ حادثہ رونما ہوا تھا،ایک رات وہ اپنے دوست سے مل کر رات کو واپس گھر آرہا تھا ،اس وقت آدھی رات ہوچکی تھی۔شہر کی زندگی میں آدھی رات کوئی بڑی بات نہیں ہوتی،گہماگہمی ہوتی ہے۔ وہ بس کے ذریعہ گھر جانا چاہتا تھا اس لئے بس سٹاپ پر کھڑا تھا لیکن اتفاق سے کوئی بس وین آتی دکھائی نہ دی اور اسکو وہاں کھڑے کھڑے ایک گھنٹہ گزر گیا،رکشے والا کافی پیسے مانگ رہا تھا سو اس نے سوچا کہ مزید انتظار کرلیتا ہے ۔یونہی کافی دیر گزر گئی تواسے ایک گاڑی آتی نظر آئی جو اُس کے پاس آ کر رک گئی۔ اس میں ایک جوان سال خوبصورت لڑکی سوار تھی ۔اس نے پوچھا ’’کہاں جانا ہیں آپ کو‘‘ وہ حیران ہوا کہ ایک جوان سال لڑکی اسکو لفٹ دے رہی ہے اور اس سے اچھی قسمت اور کیا ہوسکتی ہے ۔وہ شکریہ ادا کرکے اسکے ساتھ بیٹھا تو وہ کہنے لگی ’’ میں جانتی ہوں آپ کا گھر قبرستان کے پاس ہے‘‘ یہ سنتے ہی اسکی تو جیسے سانس رک گئی کہ وہ لڑکی اسکو کیسے جانتی ہے۔
پہلے بار اسکو عجیب سا لگا مگر اب وہ اسکے ساتھ گاڑی میں سوار تھا،لڑکی سے بھینی بھینی مہک آرہی تھی۔اسکے دل میں نہ جانے کیسے خیال آیا کہ وہ زیر لب آیتہ الکرسی پڑھنے لگا ۔یکایک وہ مسکرائی ’’آپ آیت الکرسی کیوں پڑھ رہے ہیں کیا آپ کو خوف ہے کہیں یہ لڑکی چڑیل تو نہیں ؟‘‘
یہ سنتے ہی اسکا دل بری طرح دھڑکا کیونکہ اس لڑکی کو کیسے معلوم ہوا کہ وہ دل میں آیت الکرسی پڑھ رہا تھا۔اسکا خوف اور بڑھ گیا،اس دوران وہ بولی’’ آپ کا نام منصور ہے ناں‘‘
اس سے بڑا اور کیا جھٹکا ہوسکتا تھا ۔اس نے سر اقرار میں ہلایا ’’ ہاں میرانام منصور ہی ہے ‘‘
اسکے ساتھ ہی گاڑی رک گئی ۔بولی’’ لو تمہارا گھر آگیا ‘‘
اس نے دروازہ کھولتے ہوئے جیسے ہی دیکھا وہ قبرستان کے پاس کھڑا تھا جبکہ اسکا گھر کافی دور تھا ابھی۔
’’منصور آو میں تم کو گھر تک چھوڑ آوں‘‘ وہ بت بنا رہا ،اس نے منصور کا ہاتھ تھاما اور سڑک کی طرف جانے کی بجائے قبرستان کی طرف چل دی اور ایک جگہ رک کر بولی ’’ لو تمہارا گھر آگیا ۔اب تم آرام کر لو‘‘ یہ کہتے ہوئے اس نے ایک نیم پختہ قبر کی جانب اشارہ کیا تو قبر شق ہوگئی۔قبر پر منصور جعفری کے نام کا کتبہ لگا تھا ۔لڑکی اسکے قریب آگئی ۔اسکا ہاتھ پکڑا اور کہنے لگی ’’ میں بہت جلد تم تک پہنچ جاوں گی ۔میں تمہارے بغیر بہت اداس ہوں‘‘
یکایک منصور کے دل پر اس لڑکی کی محبت کا اثر ہوا ۔وہ قبر میں اتر گیااور کسی مردے کی طرح سوگیا ۔اسکی آنکھ اس وقت کھلی جب اسے کسی نے جھنجوڑ کر اٹھایا’’ جاوید اٹھو ،بتاو تمہارے ساتھ کیا ہوا‘‘
اس نے آنکھیں کھولیں تو وہ ہسپتال میں موجود تھا ۔ڈاکٹر پاس کھڑا تھا جبکہ اسکے والد کی آنکھیں سوجھی ہوئی تھیں ’’ جاوید بیٹے کیا ہوا تمہارے ساتھ ‘‘
’’ میں جاوید نہیں منصور ہوں ،اور وہ کہاں گئی ہے ‘‘ اس کی باتیں سن کر ڈاکٹر پریشان ہوگیا اور اسے نیند کا انجکشن لگا دیا گیا۔دنوں ایسے بیت گئے مگر منصور نے جاوید کا نام قبول نہ کیا ،نہ والد کو پہچانا ۔پھر ایک دن اسکے والد اسکو ایک پیر کامل کے پاس لے گئے اور اسکا روحانی علاج کیا گیا ۔پیر صاحب نے بتایا کہ جاوید کو حقیقت میں رات کے وقت ایسا واقعہ پیش آیا تھا ۔اسکی تصدیق اسطرح ہوئی کہ وہ اسکو قبرستان میں منصور جعفری کی قبر پر لے گئے جو بیس سال پہلے قتل ہواتھا ۔اس نے محبت کی شادی کی تھی لیکن جس لڑکی سے اسکی شادی ہوئی اسکے بھائیوں نے اسکو قتل کردیا اور بہن کو دوسرے شہر لے گئے تھے جس نے بعد میں خود کشی کرلی تھی۔جب منصور کی تصویر دیکھی گئی تو ان سب کو حیران کن جھٹکا لگا کیونکہ جاوید اور منصور کے نقش ونگار میں زیادہ فرق نہیں تھا ۔ میں آج تک حیران ہوں کہ کیا آج کی دنیا میں ایسے محیر العقول واقعات رونما ہوسکتے ہیں؟
۔
نوٹ: بی ایل ٰآئی میں شائع ہونے والی تحریریں لکھاری کا ذاتی نقطہ نظر ہیں۔ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں۔